غازی علیم الدین شہید

پروفیسر محمد حسین
رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنا مرتداد سے بھی عظیم جرم ہے مرتد کو واجب القتل قرار دیا جاتا ہے لیکن جس نے رسول ﷺ کی دشنام طرازی کی اس نے اللہ کے حبیب ﷺ اور تمام اہل ایمان کو اذیت دی اس کے کفر کا شدید تر ہونااولیٰ ہے لہذا وہ متعین طور پر قتل کا مستحق ہے روئے زمین کو دشنام رسول کریم ﷺ کے اظہار سے پاک کرنا بقدر امکان واجب ہے

اس لیے کہ یہ بات غلبہ دین کی تکمیل اعلائے کلمتہ اللہ اور اللہ کے دین کیلئے خالص ہونے کا لازمی عنصر ہے سب سے پہلے ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے جان، جان آفریں کے سپرد کرنے والے بارہ سو قدسی صفات صحابہ کرام تھے جنہوں نے سید نا صدیق اکبرؓ کے حکم پر حضرت خالدبن ولیدؓ کی قیاد ت میں یمام کے میدان میں جام شہادت نوش کیا اس سنہری زنجیر کی ایک کڑی غازی علم الدین شہید تھے آپ 1908میں لاہور میں پیدا ہوئے

اگرچہ آپ کی تعلیم واجبی تھی مگر رسولؐ اللہ سے محبت کامل تھی31مارچ 1929 کو غازی صاحب اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ دہلی دروازے کے باغ میں جلسہ سننے گئے سید عطااللہ شاہ بخاری نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”تمہاری محبتوں کا تو یہ عالم ہے کہ عام حالتوں میں کٹ مرتے ہو لیکن تمہیں معلوم نہیں کہ آج گنبد خضریٰ میں رسول ؐاللہ تڑپ رہے ہیںآج خدیجہ الکبریٰ اور عائشہ صدیقہ پر یشان ہیں بتاؤ تمہارے دلوں میں امہات المومنین کے لیے کوئی جگہ ہے ؟آ ج ام لمومنین تم سے حق کا مطالبہ کرتی ہیں

مزید فرمایا جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے ناموس رسالت ؐپر حملہ کرنے والے چین سے نہیں رہ سکتے”سید عطا ء اللہ شاہ بخاری نے راجپال کی کتاب رنگیلارسول اور ناموس رسالت پر اتنی پر مغز تقریر کی کہ لوگ بے قابو ہوگئے اس تقریر نے مسلمانوں کے دلوں میں آگ لگا دی سارا ماحول شعلوں سے بھر گیا آخر تیس سالہ فروش غازی اٹھا اور اس نے ایک صبح راجپال کی دکان پر جاکر چاقو سے حملہ کیا وہ مردود راجپال زخمی ہوا

لیکن اس کی جان بچ گئی مقدمہ چلا اور جلد نمٹا دیا گیا اور غازی کی طرف سے کوئی وکیل پیش نہ ہوا عدالت نے سات سال قید سخت کی سزا سنا دی مسلمان اس بے انصافی کو کیوں قبول کرتے چنانچہ افغانستان کے عبدالعزیز نامی غیور تاجر نے راجپال پرحملہ کیا لیکن انہیں پہچاننے میں غلطی ہوئی عبدالعزیز مہاٹھے کی دکان پر پہنچ گئے

جہاں دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے غازی نے اپنی دانست میں راجپال پر حملہ کیا تھا لیکن سوامی تسیانند تھا پھر عدالت نے وکیل کرنے کا موقع دئے بغیر صرف تین دن کے اند ر سات سال کی سخت قید کی سزا سنادی اس فرنگی عدالت کی روایت اب بھی قائم ہے ناموس ؐرسالت پر کٹ مرنے کی ترنگ غازی علم الدین کے دل میں اٹکھیلیاں لے رہی تھی اور مقدر آپ پر نازاں تھا انہوں نے پہلے اپنے والد سے کہا کہ نبی پاکؐ کی شان میں گستاخی کرنیوالے کو واصل جہنم کر دینا چاہیے

والد نے اس بات کی تائید کی گویا گھر سے اجازت مل گئی پھر بڑے بھائی سے پوچھا جو راجپال کو واصل فی النار کردے اسے کیا انعام ملے گا بھائی نے بتلایا اس خوش قسمت کو سولی چڑھا دیا جائے گایہ سن کر آپ مسکرائے اور فرمایا یہ تو بہت اچھا انعام ہے پھر غازی علم الدین شہید اور اس کے ساتھیوں کے درمیان کافی تکرار ہوا کیونکہ ہر کوئی یہی چاہتا تھا

کہ یہ سعادت اسے میسر آئے آخر کار قرعہ اندازی کی گئی اور خوش قسمی سے غازی علم الدین کے نام کی پرچی نکل آئی غازی علم الدین نے 4اپریل کو نماز فخر جامع مسجد میں ادا کی تقریبا ایک بجے راجپال کی دکان پر پہنچ گئے راجپال کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں ہے چونکہ راجپال خود ہی گدی پر بیٹھا ہو ا تھا اسنے جواباََ کہا کو وہ خود ہی راجپال ہے مگر پھر فوراََ سہم گیا اور پوچھنے لگا کیا کام ہے ؟ اس پر غازی علم الدین نے اسی وقت راجپال پر چھری کا بھر پور وار کیا اور یہ کہتے ہوئے کہ یہی کام تھا راجپال کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا شور مچ گیا کہ راجپال قتل ہو گیا ہے اور پھر غازی علم الدین بہ اطمینان قریب ہی چھوٹی بہر پر آکر خون آلودہ چھری اور کپڑے دھونے لگے

ان کے ذہن میں خیال ابھرا کہ ہو سکتا ہے کہ راجپال ابھی مرانہ ہو وہ دوبارہ راجپال کی دکان پر پلٹ آئے مگر اس وقت وہاں پولیس پہنچ چکی تھی لٰہذا موقع پر ہی گرفتار کر لیے گئے غازی پرسکون اور مطمئن نظر آتے تھے ان کے چہرے سے گھبراہٹ یا پریشانی کا شائبہ تک نہ تھا پولیس نے غازی کو دودن پولیس لائن کی حوالات میں بند رکھا اور ضروری پوچھ گچھ کے لیے آٹھ دن کا ریمانڈ حاصل کیا

راجپال کے قتل کا مقدمہ 10اپریل کو سنٹرل جیل میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا استفاثہ گواہ پیش ہوئے اس دوران بیرسٹر فرخ حسین نے عدالت میں غازی کی پیروی کی اور مجسٹریٹ سے استدعا کی اور مقدمہ کو فائل کے مطالعہ تک ملتوی کرنے کا درخواست کی ایک ہفتہ کی مہلت مل گئی پھر 16اپریل کو اشتعال مقدمہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد 19اپریل کو خواجہ فیروز الدین نے مقدمہ کا چارج سنبھالا عدالت نے غازی علم الدین پر ددفعہ 202لگا کر مقدمہ سیشن کے سپرد کردیا

سیشن جج نے استغاثہ کے گواہان کے بیانات لئے بطل حریت کو ایک مدت سے قائل کیا جا رہا تھا کہ وہ اقبال قتل نہ کریں مگر غازی نے ہمیشہ اس سے انکار کیا سیشن کورٹ میں غازی علم الدین کی سچی محبت کا امتحان تھا انکار سے بچ جانے کا امکان لیکن اقرار سے موت یقینی تھی جج نے پوچھا کیا تم نے قتل کا جرم کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے کسی انسان کو قتل کرنے کا کوئی جرم نہیں کیا گویا انکی نگاہ میں راجپال انسان نہ تھا

وہ اسے آوارہ کتے سے بھی بدتر سمجھتے تھے فیصلہ سنائے جانے سے قبل غازی نے چلاچلا کر کہنا شروع کردیا شاتم رسول ؐاللہ کا قاتل میں ہوں میں نے ہی نابکار راجپال کو جہنم رسید کیا ہے23مئی کو عدالت نے غازی کو سزائے موت کا حکم سنا دیا اور فیصلہ کی توثیق کیلئے ہائی کورٹ بھیج دی اسکے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی اور علامہ اقبال اور دوسرے علماء کے مشورے سے قائداعظم محمد علی جناح کو وکیل مقرر کیا گیا

قائد اعظم کی بحث کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ راجپال نے رنگیلا رسول جیسی قابل اعتراض کتاب شائع کر کے پیغمبر اسلام کی توہین کی ہے جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا چونکہ یہ کتاب اشتعال انگیزی کا سبب بنی اس لئے ملزم نے قتل عہد کا ارتکاب نہیں کیا لہذا اسے سزائے موت نہیں دی جاسکتی ہائی کورٹ نے اپیل خارج کرکے ماتحت عدالت کا فیصلہ بحال رکھا یہ فیصلہ جب غازی علم الدین کو سنادیا گیا

توان کی جسم میں مسرت کی لہر دوڑ گئی اس فیصلہ پر ریویو کونسل میں چیلنج کیا گیا اور اس نے بھی یہ اپیل بغیر کسی سماعت کے نامنظور کردی جب غازی علم الدین نے سنا تو فرمایا اس سے بڑھ کر میری خوش نصیبی اور کیا ہو گی

کہ بارگاہ رسالت میں حاضری کی سعادت سے مجھے سر فراز کیا جا رہا ہے غازی کو لاہور سے میانوالی جیل لے جایا گیا 31 اکتوبر کی رات اس شب زندہ دارنے ذکر الٰہی اور تہجد میں گزاری مجسٹریٹ نے مرد غازی سے آخری خواہش پوچھی تو سنت صحابہ کے مطابق صرف دو رکعت نمار شکرانہ کی مہلت طلب کی

اور دو رکعت نفل ادا کرکے منزل شوق کی طرف جادہ پیما ہوئے شہادت کے بعد حکومت کی خفیہ ہدایت پر شہید نبوت کو نہایت خاموشی سے جیل کے احاطہ میں دفن کر دیا لیکن مسلمانوں کے نعرہ احتجاج پر 14نومبر 1929کو شہید کی لاش لاہور لائی گئی اور لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں علامہ اقبال نے لحد میں اتارا اور فرمایا یہ نوجوان ہم سب تعلیم یافتہ پر بازی لے گیا

اپنا تبصرہ بھیجیں