عہد ساز شخصیت۔۔۔۔سید آل عمران

عبدالستارنیازی/معزز قارئین کرام! تاریخ میں ہمیشہ وہی لوگ زندہ و جاوید رہتے ہیں جو تاریخ رقم کرتے ہیں اپنے علاقہ، ملک، قوم، زبان کیلئے کام کرنے والے تاریخ کے سنہری باب کی زینت بنتے ہیں اور ان کیلئے یہی طرہ امتیاز ہوتاہے اس دنیا میں کوئی شخص کسی کو اس کی محبت چاہت خلوص اور وفاداری کا صلہ نہیں دے سکتا مگر اچھے الفاظ میں خراج تحسین پیش کرکے اور اس کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کے رفقاء کے ساتھ تعلق استوار کرکے اس گزرے ہوئے شخص کیساتھ تعلق کی لاج ضرور رکھی جاسکتی ہے، تین یوم قبل جب اہل پوٹھوہار اور دنیا بھر میں بسنے والے پوٹھوہاریوں نے خبر سُنی تو دل غم سے چھلنی ہو گیا خطہ پوٹھوہار کا ترجمان، فخر پوٹھوہار، محسن پوٹھوہار، محبتوں کا سفیر، امن کا داعی، بین المسالک ہم آہنگی کا پرچار کرنے والا، جی بسم اللہ کے الفاظ ہر کسی کیلئے استعمال کرنے والا اور ہر کسی کو ایک ہی ملاقات میں اپنا گرویدہ بنا لینے کا فن رکھنے والا عظیم شخص سید آل عمران اس جہان فانی کو چھوڑ کر رب کے حضور پیش ہو گیا

، الفاظ میں بیان نہیں کیاجا سکتاکہ خبر سن کر میرے سمیت ہزاروں لاکھوں چاہنے والوں کی کیا حالت ہوئی ہوگی، میں ان دنوں میں بہت افسردہ رہا اور پھر دل کو تسلی دی کہ سید آل عمران کا جسم مٹی میں دفن ہواہے ان کی روح رب کے پاس پہنچی ہے مگر وہ کتابوں کی شکل میں، تصویروں کی شکل میں، تحریر وں کی شکل میں ہمارے ساتھ ہمہ وقت موجود ہیں، سید آل عمران مرحوم کا مختصر تعارف یہ ہے کہ سید آل عمران 23اکتوبر 1974 کو سید ظہورالحسن نقوی کے ہاں ”کوٹ سیداں نقوی منزل“ میں پیدا ہوئے اور ان کی تربیت ان کی دادی محترمہ نے بہت احسن انداز میں کی یہ گھرانہ خالص مذہبی گھرانہ سمجھا جاتا ہے سید آل عمران کے پڑدادا صوبیدار سید ولایت حسین نقوی خاندان بھر کی سرپرستی کرنے والے ایک منتظم اور رہنما تھے روایات تہذیب ادب اور ثقافت سے آباد سید ولایت حسین نقوی کی ”نقوی منزل“ علاقے کی پہچان سمجھی جاتی ہے، ان کا پورا خاندان یہاں آباد ہے ان کی زوجہ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا سید مرتجز حسنین نقوی ہیں

، والد سید ظہورالحسن دنیا میں نہیں رہے، والدہ، تین بھائی آل حسن نقوی، آلِ احمد نقوی، وجاہت حسنین نقوی بقید حیات ہیں جو ان کے حقیقی وارثان و پسماندگان میں شمار کئے جاتے ہیں، سید مرتجز حسنین نقوی ان کا ہونہار فرزند ہے جو اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خطہ پوٹھوہار کے باسیوں کی اسی طرح خدمت کا جذبہ رکھتاہے جس طرح اس کے والد نے ساری زندگی اپنے علاقہ اور ماں بولی کی پہچان پوری دنیا میں کراتے گزار دی، ان کی چھوٹی شہزادی سیدہ لیلیٰ فاطمہ نے ان کی علالت کے دوران ان کا پڑھا ہوا ایک پوٹھوہاری کلام پڑھا تو سننے والے اپنے آنسوؤں پر ضبط نہ رکھ سکے، سید آل عمران ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے پوٹھوہاری زبان کی ترویج و اشاعت اور اسے سرکاری زبان کا درجہ دلوانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا وہ شاعر، ادیب، کمپیئر، براڈ کاسٹر اور محقق کے طور پر بھی پہچاتے جانتے تھے اور پہچانے جاتے رہیں گے،پوٹھوہاری لینگوئج اینڈ کلچرل کونسل کے چیئرمین، پوٹھوہاری کتابی سلسلہ ”سرگ“ کے مدیر بھی تھے، پاکستان ٹیلی ویژن، ریڈیو پاکستان اور پاکستان کے بڑے ایف ایم ریڈیوز پر ادبی، تاریخی، مذہبی اور ثقافتی پروگارموں کے پیش کار بھی رہے ہیں، سید آل عمران کو پاکستان ٹیلی ویژن سے دو بار بہترین اینکر پرسن کے ایوارڈ بھی ملے، پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس، لوک ورثہ، اکامی ادبیات پاکستان، نیشنل بک فاؤنڈیشن پاکستان، کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اسلام آباداور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے مختلف علمی ادبی اور ثقافتی تقریبات میں حصہ لیتے رہے اور اپنے علاقے کی نمائندگی کرتے رہے،

پاکستان اور بالخصوص خطہ پوٹھوہار کی ثقافت، ادب، تاریخ اور روایات کو دنیا بھر میں متعارف کروانے کا سہرا سید آل عمران کے سر ہے، سید آل عمران نے ہمیشہ نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کیا، انس محبت اور بھائی چارے کے درس دیئے، مسالک کے درمیان محبت و اخوت کی فضا قائم کرنے پر ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے اور یہی ان کی خصوصی پہچان اور شناخت تھی،، خطہ پوٹھوہار میں مدفون بزرگان دین کے خصوصی ایام کے دوران انہوں نے مختلف ٹی وی پروگرامز کئے اس کے علاوہ ان کے ثقافتی پروگرامز کو بھی ٹیلیویژن سکرین پر علاقہ کی عوام بڑے انہماک سے دیکھتی اور سنتی رہی ہے، انہوں نے سٹوڈیو سے نکل کر کھیتوں کھلیانوں اور دیسی ماحول میں بھی شاندار پروگرام کئے جو رہتی دنیا تک اپنی مثال آپ رہیں گے ان کی تحریر شدہ پوٹھوہاری زبان کی ٹیلی فلم ”پہاپا آیا پاکستان“ بے حد مقبول ہوئی، 1990 سے 2020؁ء تک پاکستانی زبان و ادب، ثقافت، تاریخ اور روایت کے حوالے سے کام کرنے والے سید آل عمران کو پاکستان اور دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے جنہوں نے ہمیشہ اپنے اندر جستجو اور خیر کا چراغ روشن رکھا،انسانیت اور احترام کا درس دیا، سید آل عمران گردوں کے عارضہ میں مبتلا ہوئے تو بہت تکلیف دہ مراحل سے گزرے ان کے گردے کی پیوند کاری ہوئی اور یہ بھی تاریخ رقم ہوئی کہ انہیں ہماری قابل قدر بہن ان کی زوجہ محترمہ نے گردہ دیا، مسلسل تکلیف و بیماری کاٹنے کے بعد اب وہ تیزی سے روبصحت ہورہے تھے کہ موجودہ صورتحال میں انہیں کرونا وائرس نے آن گھیرا، جسم کا اندرونی سسٹم پہلے ہی ادویات کے سہارے چل رہا تھا جو کرونا وائرس کے حملہ کو برداشت نہ کرسکا اور 13/14 دن اسلام آباد کے نجی ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد 25جون 2020؁ء بروز جمعرات دوپہر کے وقت داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ان کے وصال کی خبر اہلیان پوٹھوہار اور دنیا بھر میں ان سے محبت کرنے والوں کے دلوں پہ بجلی کی طرح ٹوٹی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، نماز جنازہ رات 10 بجے کوٹ سیداں میں ادا کر کے ان کی تدفین کی گئی اس موقع پر ان سے محبت کرنے والے ہزاروں افراد موجود تھے جنہوں نے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے اپنے محسن و رہنما کو رخصت کیا،

سید آل عمران ایک زندہ و جاوید تاریخ کا نام ہے اور ان شاء اللہ گوجرخان، پوٹھوہار اور پاکستان کی تاریخ میں یہ نام رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا، امیدواثق ہے کہ ان کا شہزادہ سید مرتجز حسنین نقوی اپنے بابا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خطہ پوٹھوہار کی پہچان بھی بنے گا اور خطہ پوٹھوہار کے باسی اُسے بھی اسی طرح کا پیار دیں گے جیسا اس کے والد مرحوم کیساتھ کرتے تھے، اس دُعا کے ساتھ ”سدا بہار دیویں اس باغے، کدی خزاں نہ آوے“ خالق کائنات ان کی کامل بخشش و مغفرت فرمائے، لواحقین پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے فرزند و بھائیوں کو اس مشن کو جاری و ساری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں