عورت کا پیکا (ماں باپ کا گھر)

{jcomments on}ہفتہ رفتہ میں جس گاڑی میں سوار ہوکر راولپنڈی جارہاتھا اس گاڑی میں ایک بزرگ عورت بھی دیگر ساتھی عورتوں کے ساتھ سفر کررہی تھی

اچانک اپنا غم زندگی اونچی آواز میں بیان کرنا شروع کردیااپنے دکھ کو واکرتے ہوئے بتایا کہ میرا خاوند فوت ہوگیا اور بڑھاپے کا سہارا جوان اولاد بھی فوت ہوگئی جیتے رہیں میرے بھائی جن کے سہارے میں جی رہی ہوں حقیقت میں یہ بھائیوں کو خراج تحسین بھی تھا بلکہ بادی النظرمیں اس کو یاد کرنا تھا جسے ہم پیکا کہتے ہیں ہر شادی شدہ عورت کا ایک پیکا ہوتاہے یعنی ماں باپ کا گھر جہا ں اس کا بچپن گزرتا ہے اور زندگی گزارنے کے ہنر سکھا ئے جا تے ہیں بھائیو ں کی محبتیں اور بہنوں کی شفقتیں اس کے نصیب میں آتی ہیں اکثر اوقات جب دکھ، کرب، مشکل میں گھری ایک عورت ٹھنڈی آہ بھرتی ہے تو اپنے پیکے کوضروریاد کرتی ہے سسرال والے عورت کو بچپن کی یاد یں ماں باپ کی محبتوں کے قصے بہن بھائیوں کی شرارتیں یاد کرنے پر اکثر پیکے والی کے طعنے دیتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ اسے یہا ں کون سی کمی ہے لیکن پھر بھی اپنے پیکے کو یاد کرتی رہتی ہیں۔میاں محمد بخش نے فرمایا
حجر تیرا جے پانی منگے کھوہ نیناں دے گیڑاں
جی کرداتینوں سامنے بٹھا کے درد پرانے چھیڑاں
پیکے کی تانگ عورت کا زیور ہوتی ہے اور ہمارے آباء و اجداد بہن، بیٹی کو اس نصیحت کے ساتھ تو ضرور رخصت کرتے تھے بیٹا ہم تجھے جہاں بیاہ کے دے رہے ہیں وہاں سے اب تیرا جنازہ ہی اٹھنا چاہئے لیکن یہ کبھی بھی نہیں کہا جاتا کہ یہاں واپس نہیں آنا بلکہ جب بھی کوئی عورت اپنے بچوں کوساتھ لئے ماں باپ کے گھر کو روانہ ہوتی ہے تو راستہ میں ملنے والے اسے یہی کہتے ہیں کہ پیکیاں نے جلی اے عورت کی خوش قسمتی میں ایک پیکے کا سلامت رہنا بھی ہوتا ہے جس عورت کا پیکا نہیں رہتا اس کے کرب کا اندازہ بھلا کون کر سکتا ہے پیکا سے مراد عموما ماں باپ کے گھر کو لیا جاتا ہے کچھ عرصہ قبل تک پیکالوٹنے والی عورت کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا

اور انتہائی عزت و احترام سے اسے رخصت بھی کیا جاتا تھا شومئی قسمت کہ اس تیز رفتار ترقی نے ہم سے یہ بھی چھین لیا موبائل فون نے نہ آنے کے بہانے دے دئیے اور سسرال والے تو ایک عورت کو یہ کہہ کر پیکیجانے سے روک دیتے ہیں کہ ابھی تو تمہاری اپنے ماں باپ سے بات ہوئی ہے اور اب وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے پیکے جانے والے پینڈے کبھی لمبے نہیں ہوتے زمین جائیداد کے لالچ نے اس بے لوث رشتے کو بھی نقصان پہنچایا ہے جب تک اپنے حصے کی زمین ایک بہن اپنے بھائیوں کے نام منتقل نہیں کرتی اس وقت تک اس کی آؤ بھگت بھی کی جاتی ہے ناز و نعم بھی اٹھائے جاتے ہیں جیسے ہی اپنے حصے کی زمین بھائیوں کے نام کرا دیتی ہے تو ایک کپڑوں کا جوڑا دے کر بھائی تمام عمر اسے نہیں پوچھتے اور پھر وہ پیکیکو باقی عمر یاد کرتے گذار دیتی ہے اور اس کے بعد اسکی اولاد کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے اور رشتہ داری کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا

پیکے دیاں سدراں ہر ایک کو ہوتیں ہیں عورت مصیبتیں برداشت کر تی رہتی ہے لیکن کوئی اس کے پیکیکو برا کہے یہ اسے ہر گز برداشت نہیں خوش نصیب ہیں وہ عورتیں جن کے پیکی قریب ہوتے ہیں جہاں جانے کے لئے کسی گاڑی کا انتظار نہیں کیا جاتا ماں باپ بہن بھائیوں کی عیادت کے لئے کئی گھنٹے سفر نہیں کرنا پڑتا پیکیکا تعلق غربت یا امارت سے نہیں غریب عورت بھی پیکیپہ اتنی نازاں ہوتی ہے جتنی کہ امیر ۔ غریب پیکے والے بھی تحفے میں کچھ نہ کچھ ضرور دیتے ہیں اور امیر بھی میری نئی نسل سے گذارش ہے کہ وہ اس بات کا بھی ضرور لحاظ رکھا کریں کہ پیکابھی اہمیت رکھتا ہے اور اس کی سلامتی بھی اس کے بغیر زندگی ادھوری ہوتی ہے03219594492

اپنا تبصرہ بھیجیں