عوام کے آنسو اور بے حس اشرافیہ

راولپنڈی کے کینٹ ایریا حسن آباد میں میری رہائش ہے، یہ کوئی اچھی رہائشی سوسائٹی یعنی پوش ایریا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ ایک گنجان آباد اور نہایت ہی پسماندہ پرانی لوکل آبادی ہے۔ مزدور، غریب اور مجبور و بے کس قسم کے لوگ یہاں رہتے ہیں، ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں۔ کوئی بائیکیا چلاتا ہے اور کوئی رکشہ یا ٹیکسی، کوئی کسی کی دکان پر کام کرتا ہے اور کوئی کسی کے گھر میں کام کرتا ہے، کچھ بھیک مانگتے ہیں، گلی محلوں اور بازاروں میں دوسروں کے آگے روتے اور ہاتھ پھیلاتے ہیں اس کے علاوہ کچھ سفید پوش بھکاری بھی ہیں۔ ہر ماہ مکان کا کرایہ دینا اور گیس و بجلی کے بل بھرنا ان بے چاروں کے لیے بڑا ہی ”اُوکھا“ پُلٍ صراط ہوتا ہے۔ ایک پختون بی بی میرے گھر میں کام کرتی ہے، کل وہ میری بیوی کو باجی باجی بول رہی تھی اور اپنی التجائیں اور تمنائیں بتلا رہی تھی، اس کی باتیں سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ ان ارد گرد کے لوگوں کو اگر پتا چلے کہ دس میل کے فاصلے پر بھی کوئی حاجی صاحب چاول بانٹ رہے ہیں، آٹے کی تھیلیاں دے رہے ہیں، راشن یعنی اشیائے خورد و نوش یا پھر کسی بھی صورت میں کوئی امداد دے رہے ہیں تو اس بابرکت ماہٍ رمضان میں بھی یہ پریشان حال لوگ پیدل وہاں پہنچ جائیں گے اور قطاروں میں کھڑے ہو جائیں گے چاہے شام کو انہیں ایک چاولوں کی پلیٹ بھی نہ ملے۔ بھوک پھرتی ہے مرے دیس میں ننگے پاؤں رزق ظالم کی تجوری میں چُھپا بیٹھا ہے تلاشٍ معاش میں بھٹکتے روتے ان پاکستانیوں کو جب میں دیکھتا سنتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ تقریبا تین سال قبل ایک
سفید پوش میاں بیوی رو رو کر مجھے کہنے لگے ہم سود میں پھنسے ہیں، ہمارے بچے رل رہے ہیں، اس بی بی نے منت سماجت سے کہا کہ میرے میاں کو چوکیدار یا چپڑاسی کی کچی ہی سہی کوئی نوکری روزگار ضرور دلوا دیں، الغرض ان کے چہروں پر لکھی اداسیاں اور مایوسیاں میں سہہ نہ سکا پھر رہ نہ سکا، میں نے کچھ کوشش کی تو اس شخص کو مستقل طور پر تو نہیں مگر ایک ادارے میں معمولی سی عارضی نوکری مل گئی۔ چند دن قبل وہی میاں بیوی دوبارہ میرے پاس آگئے یہ فریاد لے کر کے معمولی لڑائی کی وجہ سے مجھے نوکری سے نکال دیا گیا ہے، آپ نے تو فون کر کے ہمیں ایک محترم جنرل صاحب کے پاس بھیج دیا تھا اور انہوں نے نوازش فرما کر ہمیں نوکری دے بھی دی تھی لیکن اب ایچ آر یعنی ایڈمنسٹریشن کے بریگیڈئیر صاحب نے ایک معمولی سی شکایت کی وجہ سے مجھے نوکری سے ہی نکال دیا ہے حالانکہ میں نے جناب بریگیڈیئر صاحب کو بار بار کہا کہ میرے بچے بھوکے مریں گے خدارا آپ مجھے معاف فرما دیں مجھے نوکری سے نہ نکالیں لیکن صاحب نے کہا کہ تم لوگ ”بدمعاشیاں“ کرتے ہو، کہاں ہے وہ میڈیا والا میں اس کو تمہارے کرتوت تو بتلاؤں، کیونکہ جب میں نماز تراویح پڑھ رہا ہوتا ہوں تو اس وقت اس کی کال میسجز آرہے ہوتے ہیں کہ یہ غریب ہے اس پر شفقت فرمائیں۔
گندم امیرٍ شہر کی ہوتی رہی خراب
بچی کسی غریب کی فاقوں سے مرگئی
اس ضمن میں دین کیا کہتا ہے، مفہوم کی صورت میں عرض ہے کہ فرعون کی جب پکڑ ہوئی تو وہ بار بار حضرت موسی علیہ السلام سے کہہ رہا تھا کہ اے موسی علیہ السلام مجھے معاف فرما دیں لیکن موسی علیہ السلام مان نہیں رہے تھے تو بحکم اللہ وحی نازل ہوئی کہ اے موسی علیہ السلام تو کتنا سخت دل نکلا، تیرا دل ذرا بھی نہیں پسیجا، وہ بار بار بول رہا تھا کہ اے موسی علیہ السلام مجھے معاف کر دیں، اے موسی علیہ السلام مجھے معاف کر دیں، اگر وہ ایک بار بھی یہ کہہ دیتا کہ یا اللہ مجھے معاف فرما دیں تو میں اسے فوراً معاف کر دیتا“۔ دنیا بھر کے نظریہ ہائے فکر و مذاھب کے نزدیک بھوکے کو روٹی روزگار دینا سب سے بڑی نیکی ہے۔ بلا شبہ اگر دلوں میں خوفٍ خدا، رحم دلی اور خدا ترسی ہو تب کسی کا دل پسیجتا ہے اور سوچتا ہے کسی کے لیے لیکن صد افسوس کہ ہم ایسا سوچتے نہیں ہیں اور یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے اور بد قسمتی بھی۔ شعیب بن عزیز کے الفاظ میں:
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تو تھا مگر معلوم نہیں کب وہ اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو آٹا لے کر دیں گے۔ یہ جو کہتے تھے ہم مفت پٹرول فراہم کریں گے انہوں نے 9 روپے 66 پیسے فی لٍٹر اضافہ کر کے غریب عوام پر ایک اور پٹرول بم گرا دیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ ”پاکستان دیوالیہ ہو چکا، عوام کو فوری ریلیف نہیں دیا جا سکتا“ لیکن یہ نہیں بتلایا کہ ملک کو اس نہج پر پہنچانے میں زیادہ کردار نون لیگ کا ہے یا شین لیگ کا ہے۔؟ ان حالات میں برادرم بیرسٹر سیف نے صد فیصد درست فرمایا ہے کہ ”عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اور حکمران لگے ہیں اپنی اپنی شاہ خرچیوں میں، انہوں نے کہا کہ اس سے قبل گاڑی کے لیے انہوں نے خزانے کو تین کروڑ روپے کا ٹیکہ لگایا تھا لیکن مریم نواز کی شاہ خرچیاں ختم ہی نہیں ہو رہی ہیں اور اب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے لیے تین ارب روپے کا جرمن ہیلی کاپٹر خریدا جا رہا ہے“۔ مجھے لگتا ہے کہ یہاں سب غفلت کی نیند سو گئے ہیں اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ یا خدا کیا بنے گا اس ملک کا اور سوچنا یہ ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔؟
نگہی چادر تان کے سو گئے
مالک چور پچھان کے سو گئے
لُٹن والیاں رج رج کے لُٹیا
جاگن والے جان کے سو گئے

اپنا تبصرہ بھیجیں