عوام کا نہیں صرف ذاتی مفاد

11نومبر 1974 کی رات تقریباً ساڑھے بارہ بجے لاہور کی شادماں کالونی میں ایک کار پر فائرنگ ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ڈرائیور کی سیٹ کے ساتھ بیٹھا ایک شخص فوت ہو جاتا ہے فوت ہونے والے شخص کا نام نواب محمد احمد قصوری ہے اس کا بیٹا اپنی مدعیت میں اس وقت کے وزیراعظم کے نام ایف آئی آر درج کرواتا ہے پولیس اور اہل خانہ کے بار ھا اصرار کے باوجود وہ نوجوان بضد رہا کہ یہ حملہ وزیراعظم نے ہی کیا ہے یہ ایف آئی آر درج کروانے والا نوجوان سپریم کورٹ کے وکیل احمد رضا قصوری تھا اکتوبر 1975 کو یہ کیس داخل دفتر کر دیا گیا1977کے عام انتخابات میں دھاندلی کے معاملے پر اپوزیشن کی تحریک نے شدت اختیار کی اور ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوگئی اسی صورتحال میں بالآخر 5جولائی 1977 کو جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر دیا ساتھ ہی ساتھ اس کیس کی بھی از سرنو تحقیق و تفتیش شروع کردی جاتی ہے فیڈرل سکیورٹی فورسز کے دو اہلکار مجسٹریٹ کے سامنے اقبال جرم کر لیتے ہیں 3ستمبر 1977کو ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیا جاتا ہے 18 مارچ 1978 کو بھٹو صاحب کے خلاف فیصلہ آ جاتا ہے جس کی رو سے بھٹو صاحب نے فیڈرل سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر نواب صاحب کے قتل کی منصوبہ بندی کی اس جرم میں بھٹو صاحب کو سزائے موت سنا دی گئی بھٹو صاحب کی طرف سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی لیکن بد قسمتی سے سپریم کورٹ کا فیصلہ 6 فروری 1979 کو چار اور تین کے تناسب سے بھٹو صاحب کے خلاف آیا دنیا کے مختلف ممالک سے پھانسی رکوانے یا اس کو ملک بدری میں بدلنے کی کوشش کی گئی لیکن جنرل صاحب نے کسی کی نہ سنی اور آخر کار 4 اپریل 1979 کو راولپنڈی میں پھانسی دے دی گئی بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت اور جیالوں نے مارشل لاء کے بڑے ستم برداشت کیے یہ دس سالہ دور مصائب و الام کا پہاڑ بن کر ان پر ٹوٹا طرح طرح کی اذیتوں میں ان کو مبتلاء کیا گیا بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو نے جیل کاٹی اور بعد ازاں رہائی کے فوراً بعد بینظیر صاحبہ کو جلا وطنی کاٹنا پڑی لیکن یہ لوگ عزم و ہمت کے پہاڑ ثابت ہوئے بلآخر قفل ٹوٹا اور 30 ستمبر 1985 کو جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لاء کے خاتمے کا اعلان کیا تو بینظیر بھٹو 10اپریل 1986کو وطن واپس پہنچیں ان کا انتہائی شاندار اور تاریخی استقبال کیا گیا ان ساری وجوہ کی بنا پر پیپلز پارٹی کے نزدیک جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کے تمام حلیف مجرم تھے اور وہ سارے کے سارے پیپلز پارٹی کے دشمن تھے جنرل صاحب کے حلیفوں میں میاں محمد نواز شریف صاحب بھی تھے جنھوں نے 1981 میں مارشل لاء کے زیر سایہ پنجاب کے وزیر خزانہ سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور بعد ازاں اسی سائے میں 1985 میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز رہے اس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں یہ جو 1990 سے دشمنی چلی آ رہی ہے وہ سیاسی سے زیادہ ذاتی ہے اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ ہر جماعت کی دوستی اور دشمنی تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن ان کی دشمنی اسی جگہ پر قائم و دائم تھی ان دونوں جماعتوں کے مرکزی قائدین سے لے کر ایک عام ووٹر تک ایک دوسرے کو ملک دشمن اور سکیورٹی رسک قرار دیتے رہے ہیں اور دے رہے ہیں دل کے اندر وہ نفرت وکدورت اسی طرح قائم و دائم ہے لیکن جب بات عوام کے مفاد کی نہیں ان دونوں کے مشترکہ مفاد کی آ جائے تو وہ جانی دشمنی کو پس پشت ڈال کر اکٹھے ہو جاتے ہیں ان کی دشمنی اس وقت دوستی میں بدل جاتی ہے جیسے 14مئی 2006ء کو نام نہاد
میثاق جمہوریت کے نام سے پاکستان مسلم لیگ (ن) اورپاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان لندن میں ہونے والا معاہدہ ہے جو صرف اور صرف ان دو شخصیات کے اپنے ذاتی مفاد کے لیے تھا عوام کا مفاد اس میں دور دور تک نظر نہیں آ رہا تھااس میں ان آئینی ترامیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا جو ان کی راہ میں رکاوٹ تھیں جیسے تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے پر پابندی وغیرہ حال کی بھی صورت حال ملاحظہ فرمائیں جس دن سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے دونوں جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر زور آزمائی کر چکی ہیں جب انہیں محسوس ہوا کہ اگرہم نے اپنی ذاتی دشمنی کو نہ بھولیا تو ہم مستقبل میں مکمل طور پر منظر سے پس منظر میں چلے جائیں گے تو وہ جو ایک دوسرے کو چور ڈاکو مسٹر ٹین پرسنٹ اور پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کرتے تھے آج عوام کے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے ساری باتوں طعنوں گالیوں دشمنیوں کو ایک طرف رکھ کر دشمن کے گھر آ جاتے ہیں پھر عوام کے مفاد کی اتنی پردہ داری ہے کہ خاص ملاقات میں دونوں طرف سے باپ بیٹے اور بھتیجی کے علاوہ پارٹی کا کوئی ایک عہدیدار بھی شریک نہ کیا اس سے عیاں ہوتا ہے کہ عوام کا کتنا مفاد عزیز ہے اور پارٹی قائدین پر کتنا اعتماد اور بھروسہ ہے یہ سارے میل ملاپ نہ ملک کے لیے ہیں نہ عوام کے لیے بلکہ یہ ساری گہما گہمی دوڑ دھوپ چہل پہل جلسے جلوس عدم اعتماد احتجاج پریس کانفرنسوں میں تابڑ توڑ حملے الزام تراشیاں صرف اور صرف اپنی ذات کو بچانے کے لیے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں