عنوان ساس بہو کے جھگڑے

ساجد محمود
شادی بیاہ کے موقعہ پر دلھاو دلھن کے بناو سنگھار میں لپٹے چہرے باراتیوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں جب ڈھولی سسرال کے گھر پہنچتی ہے تو دلھن کے استقبال کیلئے دیگر اہلِ خانہ کیساتھ ایک مقدس ہستی بھی کھڑی ہوتی ہے جسے ساس کے نام سے پکارا جاتا ہے اس موقعہ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے ساس کی جانب سے بہو سے اظہارِ محبت اکثروبیشتر محض نمائشی اور وقتی ہوتا ہے اور پھر بعض گھرانوں میں رفتہ رفتہ یہ محبت نفرت میں بدل جاتی ہے عموماً اس نفرت کی شروعات کچن سے ہوتی ہے جو گھر کے صحن اور گلی محلے تک پھیل جاتی ہے ساس کا بہو کو آدابِ معاشرت کا سبق پڑھانا کھانا پکانے میں عیب نکالنا ہانڈی پکاتے ہوئے نمک مرچ اور گھی کی زیادتی پر آسمان سر پر اٹھا لینا نوک جھوک کی صورت میں بہو کو میکے جانے سے روکنے کی غرض سے دفعہ 144کا نفاذ اور چارپائی پر بیٹھ کر تکیہ کی ٹیک لگائے ساس کا بہو کو حکم دے کرتگنی کا ناچ نچانا شامل ہے جاری کشیدہ صورتحال میں ساس کی جانب سے بہو پر زبانی اور جسمانی حملے مارپیٹ گالی گلوچ ہاتھاپائی اور طاقت کے عملی مظاہرے کے دوران اکھاڑ بچھاڑ کے سنسنی خیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ان حالات میں ساس کی جانب سے اختیار کیا گیا جارحانہ طرزِ عمل گھر میں نقصِ امن کا سبب بنتا ہے اگر بہو پڑھی لکھی تہذیب یافتہ ہو تو وہ ساس کو ماں کا درجہ دے کر قلیل عرصے کیلیے ظلم و ذیادتی برداشت کرتی ہے مگر جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو بہو کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو جاتا ہے بہو کی جانب سے اعلان جنگ ساس کے اختیارات کو چیلنج کرنے کے مترادف ہوتا ہے اس تمام صورتحال میں خاوند بجائے معاملات کی درستگی کے راہ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہے موجودہ دور میں شہری بہو کیطرح دیہاتی بہو بھی اپنے سسرالیوں کے ناروا سلوک کے خلاف مقابلے کیلئے کمر بستہ ہو جاتی ہے وہ اس مہم جوئی میں خاوند کو بھی اپنے زیرِ عتاب کرلیتی ہے عام معاشرے میں بظاہر سفید پوش دکھائی دینے والا خاوند گھر میں بیوی کے سامنے بیگھی بلی بن جاتا ہے جسکے نتیجے میں بہو ساس کی جانب سے کسی بھی جارحیت یا شورش کو کچلنے کیلیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے اگر بہو مضبوط اعصاب کی مالک ہو تو اس گھتم گھتا لڑائی میں ساس کو جسمانی اور زہنی ازیت سے بھی گزرنا پڑتا ہے جسکی بنا پر ساس کو مختلف بیماریوں کا عارضہ لاحق ہو سکتا ہے جن میں بلڈپریشر اور شوگر کا بڑھ جانا شدید اعصابی کھچاؤ سر درد بھوک نہ لگنا بہو کو خوش دیکھ کر خفگی محسوس کرنا بیٹے کو بیوی کے غلام ہونے کے طعنے دینا وغیرہ روزانہ کے آپسی جھگڑے کی صورت میں بیوی روٹھ کر میکے چلی جاتی ہے ان حالات میں مرد کیلئے ایک طرف ماں کے انمول رشتے کو نبھانا مشکل ہوتا ہے تو دوسری طرف بیوی اور ساس کے درمیان رشتوں میں توازن قائم رکھنا بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا اگر ساس اور بہو کا باہمی تنازع حد سے بڑھ جائے تو ایسی صورت حال میاں بیوی کے درمیان علحیدگی کا سبب بن سکتی ہے عموماً ساس اور بہو کے جھگڑے کے بنیادی محرکات گھروں کے ماحول کی مناسبت اور مسائل کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں چونکہ ساس بھی پہلے کسی گھر کی بہو ہوتی ہے اگر اس دوران وہ سسرالیوں کی جانب سے ظلم وزیادتی کا نشانہ بنتی ہے تو وہ بدلے کیلیے اپنی ہونے والی بہو کا انتخاب کرتی ہے دیگر عوامل میں ساس اور بہو کے درمیان اختیارات کی جنگ رشتوں کے تعین میں معاشی عدم مسابقت ساس کا بہو کو گھر کی باندھی بنانا رضامندی کے خلاف شادیاں دیگر رشتہ داروں کی باہمی چپقلش کو اپنے گھر کی دہلیز پر لے آنا تعلیم وتربیت کی کمی محض لالچ دولت اور حسب نسب کی بنا پر رشتوں کا معرضِ وجود میں آنا کم عمری کی شادیاں اور جھگڑالو خاندانی پس منظر شامل ہیں گو ساس اور بہو کے درمیان اختیارات اور طاقت کے توازن کے معاملے پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں تاہم اگر ساس نفرت انگیز رویہ کے حصار سے نکل کر بہو کو مامتا کا پیار دے اور بہو بھی ساس کی خدمت گاری میں اپنی آنکھیں فرشِ راہ بچھا دے تو ساس بہو کے مقدس رشتوں کے درمیان جاری روائیتی جنگ کا خاتمہ ممکن ہے
کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس اپ رائے دیں03218554084

اپنا تبصرہ بھیجیں