عمران خان ڈٹ جانے والا لیڈر ہے، مگر

عمران خان سے لاکھ اختلافات سہی مگر یہ بات تو تسلیم کرنی پڑے گی کہ وہ جو کہتے ہیں وہ کر دکھاتے ہیں۔ چاہے اس کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہو، یہ دوسری جماعتوں کی کمزوریاں ہوں، جن سے وہ فائدہ اٹھا جاتے ہیں یا اب تک وہ اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے ہیں اور ان کا لاڈلا پن ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ ان کے پاس ایسی کون سی جادو کی چھڑی ہے کہ ادارے بھی ان کے فیصلے کے خلاف نہیں جا سکتے اور عدالتیں بھی ان سے کوئی سوال نہیں پوچھتیں۔ وہ جو چاہے کر لیتے ہیں، ان کے لیے کوئی کام قانونی نہیں اور کوئی کام غیر قانونی نہیں بلکہ ان کے لیے قوانین بھی تبدیل ہو جاتے ہیں اور عدالتیں بھی انہیں سپورٹ کرنے کے لیے اپنے ہی فیصلوں کے خلاف چلی جاتی ہیں۔ جیسے عدم اعتماد کی ووٹنگ میں ہوا تھا کہ جو فیصلہ وفاق میں ہوا پنجاب میں اس کے خلاف فیصلہ دے کر پی ٹی آئی کی حکومت کو بحال کر دیا۔ اس طرح پی ٹی آئی کے خلاف لاڈلے پن کے بیانیے کو مزید تقویت ملی۔
بہر حال کچھ بھی ہو عمران خان جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں چاہے اس سے سب کو کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو حتیٰ کہ ان کی اپنی جماعت کے رہنما بھی اس سے اختلا ف کررہے ہوتے ہیں مگر وہ وہی کر کے دکھاتے ہیں جو انہوں نے کہہ دیا ہوتاہے۔ وہ کسی بھی تنقید یا اختلاف کی پرواہ نہیں کرتے، مخالفین اسے ضد کہیں یا انا کہیں، تکبر کریں یا خود اعتمادی، وہ کسی کی پرواہ کیے بغیر وہی سب کچھ کرتے چلے جا رہے ہیں جو ان کے جی میں آتا ہے۔ اس میں وہ ملک کے نفع نقصان کی بھی کوئی پرواہ نہیں کرتے، صرف اپنی مرضی کرتے ہیں اور کیوں نہ کریں جب انہیں معلوم ہے کہ پارٹی میں ان کے علاوہ کوئی اور تو ہے نہیں۔ وہی سب کچھ ہیں، پارٹی انہی کی ہے اگر آسان الفاظ میں کہیں تو وہی پی ٹی آئی ہیں۔ ان کے بغیر پی ٹی آئی کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، وہ جو چاہیں گے پارٹی میں وہی ہو گا، جو نہیں چاہیں گے وہ نہیں ہو گا چاہے اس کے لیے کوئی کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لے۔ ان مرضی کے بغیر پی ٹی آئی میں کوئی پتہ تک نہیں ہل سکتا۔ وہ جسے چاہیں گے وہ پارٹی میں رہے گا جس سے ان کا جی بھر جائے گا تو اس کی تمام تر خدمات، اس کی اے ٹی ایم، اس کے جہاز سب کچھ فراموش کر کے اسے پارٹی سے نکال پھینکا جائے گا۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں عمران خان کی محض ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ان کے دیرینہ رفقاء، تحریک انصاف کے اہم عہدیداران اور اہم ترین خدام کو نکال باہر کیا۔ بلکہ بہت سے پی ٹی آئی کے بانیان کو بھی پارٹی سے نکال دیا گیا۔
یہ تو حقیقت ہے کہ عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کچھ نہیں ہے، ان کے علاوہ کوئی بھی ایسا دوسرا لیڈر جماعت میں نہیں ہے جو ان کی جگہ لے سکے، نہ ہی عوام کسی کو اس قدر چاہتے ہیں جتنا کہ عمران خان کو۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کی سپورٹ حاصل رہی ہے جس کی وجہ سے وہ اس مقام تک پہنچے ہیں اور ملک اس حال تک۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام میں دل و جان سے ان کو چاہنے والوں کی کمی نہیں ہے، لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو اب بھی عمران خان کو نہایت عزیز رکھتے ہیں کیونکہ عوام عام طور پر حقائق نہیں جانتے اور وہ ظاہری نعرے اور دعوے دیکھ کر کسی کو چاہنے لگے ہیں۔ لہٰذا عمران خان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں ہے، عوام اب بھی بڑی تعداد میں ان کے ساتھ ہیں اور عمران خان کسی بھی حال میں ہوں یا کچھ بھی کریں عوام تحریک انصاف کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔ وہ عمران خان کی محبت میں یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جس شخص ہم ووٹ دے رہے ہیں وہ کیسا ہے؟ بس پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہی کافی ہے۔ عمران خان کے
علاوہ جماعت میں کوئی دوسرا ایسا نہیں جو ان کے قریب تر بھی ہو۔
عمران خان نے اپنا کوئی جانشین بھی نہیں بنایا اور انہوں نے اپنی ذات کی حد تک موروثی سیاست نہیں کی، اگرچہ ان کی جماعت میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنے بچوں میں سے کسی کو سیاست میں نہیں لایا لیکن ان کے بچے پاکستان میں بھی تو نہیں ہیں بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ان کاجب کوئی جانشین بھی نہیں ہے جو ان کی جگہ لے سکے تو ان کے بعد تحریک انصاف لاوارث سی ہو جائے گی۔ جس کا کوئی خاص رہنما نہیں ہو گا اگرچہ جماعت ختم تو نہیں ہو جائے گی کیونکہ اتنی بڑی عوامی جماعتیں ایسے لمحوں میں ختم نہیں ہو جایا کرتیں لیکن جماعتوں کے لیے مشکلات بہت زیادہ پیدا ہو جاتی ہیں اور ان کی مقبولیت ختم ہو جاتی ہے پھر وہ سہاروں پر ہی تھوڑی بہت چلتی ہیں۔ یہ جماعت تو پہلے ہی سہاروں پر چلتی ہے جیسے وفاق میں سہارا کھینچا گیا تو دھڑام سے گر گئی اسی طرح پنجاب میں بھی سہاروں کو قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
بہر حال بات وہیں آجاتی ہے کہ عمران خان اپنی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو جی میں آٓئے کر گزرتے ہیں اور ایک بار جو فیصلہ کر لیں اس پر ڈٹ جاتے ہیں جیسے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ انہوں نے کر لیا تو پرویز الہٰی جو پنجاب میں ان کی حکومت قائم رکھنے کا واحد ذریعہ ہیں ان کی بھی نہیں چلنے دی اور اسمبلی کی تحلیل پر ان سے دستخط کرا کے ہی دم لیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں کہ جس بات کی ٹھان لیں وہ کر گزرتے ہیں، چاہے اس سے ان کا ذاتی نقصان ہو یا ملک کا وہ کسی بات کی پرواہ نہیں کرتے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ قومی مفادات کے لیے اس طرح ڈٹ کر فیصلے کرتے تو آج ملکی حالات بہت مختلف ہوتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں