علم کی حکمرانی

محمد شہزاد نقشبندی/ایک رپورٹ کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے چین نے موسم کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے جس کی مدد سے ہزاروں میل رقبے پر مصنوعی بارش اور برفباری کرانا اب ممکن ہو سکے گا چین کا کہنا ہے کہ 2025 تک موسم کو تبدیل کرنے یا ضرور ت کے مطابق ڈھالنے کا ایک باقاعدہ مربوط اور مضبوط نظام بھی تشکیل دے دے گا جس کے ذریعے جس علاقے میں جتنی بارش کی ضرورت ہوگی کرائی جاسکے گی حتیٰ کہ ضرورت پڑنے پر برف باری بھی کرائی جا سکے گی مصنوعی بارش برسانے کی ٹیکنالوجی پر تو بیسویں صدی کے اوائل میں جرمنی روس اور ہالینڈ نے کام شروع کر دیا تھا ابتدائی کامیابی 1933 میں ملی جبکہ مکمل کامیابی 1946 میں ایک امریکی سائنسدان کو حاصل ہوئی جو ایک مختصر حصے پر بارش برسانے کا عمل تھا ابھی حال تک بے شمار ممالک میں انتہائی مختصر پیمانے پر بارش برسانے کا عمل کامیابی کے ساتھ کیا جا چکا ہے لیکن چین مختصر پیمانے کی بات نہیں کر رہا ہے بلکہ انتہائی بڑے رقبے کی بات کر رہا ہے جو بھارت کے کل رقبہ سے بھی ڈیڑھ گنا زیادہ ہے جس پر وہ اپنی مرضی سے بارش کم یا زیادہ برسا سکے گا اور زیادہ گرم یا زیادہ سرد موسم کو بھی اعتدال پر لانے میں ممد و معاون ثابت ہو گا یعنی اب چین کا دنیا کے موسم پر مکمل کنٹرول ہو گا یہ ٹیکنالوجی گیم چینجر ثابت ہوگی اس کے ذریعے زراعت میں انقلاب برپا ہو جائے گا کیونکہ جس فصل کو جتنے پانی کی ضرورت ہوگی وہاں اتنی بارش برسا دی جائے گی چین کی زرعی پیداوار جو پہلے بھی بہت زیادہ ہیں اب اور بڑھ جائیں گی ساتھ ہی ساتھ پڑوسی ممالک پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے اگر انہوں نے اس فیلڈ میں ترقی نہ کی یا ڈیفنس سسٹم تیار نہ کیا تو ان کے موسم پر بھی چین کا ہی کنٹرول ہو گا جو ان کے لیے شدید نقصان دہ ہو گا ان کو تباہی و برباد کرنے کے لیے کسی ایٹم کی ضرورت نہیں ہو گی ایک اور رپورٹ کے مطابق اسرائیلی سائنسدانوں نے شمسی توانائی سے چلنے والی ایک ایسی ٹیکنالوجی دریافت کرلی ہے جو ہوا میں موجود نمی کو کشید کر کے اسے پینے کے پانی میں تبدیل کر دیتی ہے یہ ٹیکنالوجی روسی نژاد اسرائیلی مائیکل میریلن شویلی کی کمپنی نے غزہ کی گنجان ترین آبادی کے پینے کے صاف پانی کی شدید کمی کو پورا کرنے کے لیے متعارف کروائی ہے یہ دنیا کی تسخیر کی تازہ ترین دو مثالیں آپ کے سامنے رکھی ہیں باقی دنیا کی ترقی کی رفتار آپ کے سامنے ہے بتانے کی ضرورت نہیں یہ ذکر کرنے کا مقصد و مدعا صرف اور صرف یہ ہے کہ دیکھیں کوئی بھی قوم وملت علم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی چاہیے وہ ترقی سیاسی ہو معاشی ہو معاشرتی ہو یا سماجی اوراس کے ساتھ ساتھ دنیا کی قیادت و سیادت بھی ان ہی قوموں کو حاصل ہوتی ہے اور وہی قومیں ترقی کے زینے طے کرتی ہیں جن کا مرکز و محور علم ہوتا ہے جن کا علم سے چولی دامن کا ساتھ ہوتاہے اگر آپ قوموں کے عروج و زوال پر نظر دوڑائیں تو آپ بخوبی آگاہ ہوں گے کہ ماضی میں بھی جس قوم کو بھی دنیا پر حکمرانی ترقی و عروج یا تنزلی و محکومی ملی اس کا سارا دارو مدار علم پر ہی تھا جس کے ہاتھ میں زیور علم وہ قسمت کا دھنی جو نابلد وہ مجبور‘مسلمانوں نے بھی دنیا پر تقریباً ایک ہزار سال بلا شرکت غیرے حکمرانی کی ان کا دنیا پر دور دور تک کوئی ثانی اور مد مقابل نہیں تھا ان کے بعد یہ مقام ومرتبہ جاہ و جلال حکومت کبھی یورپ کبھی روس اور کبھی امریکہ کو ملا ان کو دنیا کی قیادت و حکمرانی کا موقع ملا اور اب امریکہ کے سر سے بھی یہ دنیا کی قیادت و سیادت کا ھما پھڑ پھڑا رہا ہے اس کے سر سے سرک کرکسی اور کے سر پر بیٹھنے کی کوشش کر رہا ہے اس کے سر پر جو علم و دانش کا گرویدہ ہے جو اس کا صحیح قدردان اور خادم ہے دنیا کی حکمرانی کا ہما تھوڑے تھوڑے عرصے بعد ایک کے سر سے اڑ کر دوسرے کے سر پر کیوں بیٹھ جاتا ہے اس کی وجہ صرف اور صرف ایک ہے اور وہ ہے علم جب کوئی قوم اس سے پہلو تہی کرتی ہے تو وہ اس سے ناراض ہو جاتا ہے اور اس کے پاس چلا جاتا ہے جو اس کا قدر شناس ہوتا ہے کبھی مسلمان بھی اس کے قدر شناس تھے ان کا آپس میں گھری محبت کا رشتہ تھا وہ ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے جوں ہی مسلمانوں نے اس سے ناطہ توڑنا شروع کیا تو وہ عروج سے تنزلی کی طرف آنا شروع ہو گئے اور وہ جو علم و دانش سائنس و ٹیکنالوجی سے کوسوں دور تھے جیسے ہی انہوں نے علم کے دامن میں پناہ لینا شروع کی تو دنیا کے افق پر نمودارہونا شروع ہوگئے انھوں نے جیسے ہی اس سے بے رخی برتی تو وہ ماضی بن گئے کوئی اور سامنے آ گیا الغرض جس نے اس کو اپنے سر کا تاج بنایا وہ کامیاب ٹھرا اس طرح یہ مقام ومرتبہ ایک کے بعد دوسرے کو ملتا رہا یہ مقام ومرتبہ جس بھی قوم کو ملا جس نے بھی دنیا پر حکمرانی کی یا کرے گی یہ حکمرانی اس قوم و ملک نے نہیں کی یا کرے گی بلکہ یہ حکمرانی علم کی ہے جس نے بہی اس کے دامن میں پناہ لی جس نے بھی اس کو اپنا راہبر و راہنما بنایا جو بھی اس کے ساتھ جڑا رہا وہ تنہا فرد ہو یا قوم حکمرانی اسی کو ملتی رہی اور ملے گی بھی تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ دنیا پر اصل حکمرانی علم کی ہے نہ کے کسی فرد یا قوم کی

اپنا تبصرہ بھیجیں