288

عظیم دا دا امیر حیدر

مت سہل ہمیں جانوپھرتا ہے فلک برسو ں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
پاکستان میں عوامی جدوجہد کی تاریخ بڑی پر مایہ رہی ہے، اس میں اپنے عہد کے بڑے بڑے نام شامل رہے جنہوں نے اپنی زندگیاں محنت کش عوام کی طبقاتی جدوجہد کے لیے وقف کر دیں۔ ان ہی ہستیوں میں دادا امیر حیدر کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ جنہوں نے بچپن سے بڑ ھاپے تک زندگی کا ایک ایک لمحہ مصروف رہ کر گزارا۔دادا امیر حیدر مقامی سطح کے کارکن نہیں تھے بلکہ انہوں نے عالمی سطح پر مزدور تحریک کی خدمت کی۔اور مختلف ممالک میں جن میں سویت یونین، امریکا، اور دیگر ممالک بھی شامل ہیں، طبقاتی جدوجہد میں حصہ لیتے رہے۔دادا امیر حیدر ساری دنیا کے شہری تھے۔اور انہوں نے ساری دنیا کو اپنا وطن بنا لیا تھا۔

دادا امیر حیدر پوٹھار کے علاقے کلر سیداں کے گاؤں سہلیاں میں 3مارچ 1900میں پیدا ہوئے۔ان کے بچپن کے یادوں کا سلسلہ بیسویں صدی کے اوائل سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت ملک پر انگریز کا راج تھا۔ لیکن ظلم کرنے والے صرف انگریز ہی نہیں تھے بلکہ انگریز سرکار کے دلال بھی لوگوں کا خون چوسنے کے درپے رہتے تھے۔شاید اسی وجہ سے دادا امیر حیدر کا دل بچپن سے ہی اس نظام کے خلاف نفرت اور بغاوت رکھتا تھا۔گاؤں کی غربت اور پسما ندگی کی زندگی سے بے زار ہو کر صرف پندرہ سال کی عمر میں ہی گھر بارچھو ڑکر بمبئی (ممبئی) چلے گئے۔ کم عمری کی وجہ سے انہیں شروع میں کوئی نوکری نہ ملی۔تاہم وہ کسی نہ کسی طرح بحری جہازپر کوئلہ جھونکنے والے کا کام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ کم عمری میں ہی نا معلوم منزلوں کی جانب بحری سفر پر نکل پڑے۔ زندگی کا ایک لمبا عرصہ دنیا کے سمندروں میں گزارا۔ امریکہ اور روس میں نہ صرف مزدور کی حیثیت سے کام کیا بلکہ ماسکومیں رہ کر روسی انقلاب کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔وہ ہر لمحہ عشق بشر کی سرکار میں رہتے۔اور اس عشق نے انہیں کئی کٹھن مرحلوں سے گزارا۔ جیل خانے کی صعوبتیں کاٹ کر آتے لاہور کے شاہی قلعے میں قید کر لیے جاتے۔ کبھی ہانگ کانگ میں پابند سلاسل کیے جاتے تو کبھی نیویارک کے قید خانے میں ڈال دیے جاتے۔ کبھی سمندرکی لہروں سے ٹکراتے تو کبھی مزدور تحریکوں میں حصہ ڈالتے۔

کبھی کار فیکٹریوں میں کام کرتے تو کبھی دنیا کے مزدوروں ایک ہو جاؤ کا نعرہ لگاتے۔کبھی چین میں تو کبھی ماسکو کے ریڈ سکوائر پر فاتحانہ انداز میں نظر آتے۔مزدور کے حقوق کے لیے ایک جیل سے نکلتے تو دوسری جیل کا دروازہ ان کے لیے کھل جاتے۔1928میں وطن واپس لوٹے۔ اور اپنی باقی زندگی نہ صرف مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی بلکہ ان کے حقوق کی خاطر قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ دادا امیر حیدر دنیا بھر کے سفیر کے طور پر مانے جاتے تھے۔ دادا میر حیدر کسی کالج یا یونیورسٹی کے فارغ التحصیل نہیں تھے۔ ان کے پا س کوئی بنیا دی تعلیم بھی نہیں تھی۔ مگر وطن سے دور رہ کر قیام کے دوران انگریزی زبان پر مہارت حاصل کر لی تھی۔شاید اسی وجہ سے ان کی اکثر یاداشتیں بھی انگریزی میں ہی تھی۔ آخری عمر میں تعلیم کا اس قدر شوق تھا۔ کہ انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے پتھر اگھٹے کیے اور اپنے آبائی گاؤں کاہلیاں میں کچے پتھروں سے سکول کی بنیاد رکھی

۔جنگل میں مال مویشی چرانے والوں کو بھی تعلیم سے آراستہ کرتے۔ دادا امیر حیدر پوری دنیا کے شہری تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو کئی ممالک کے لوگ حاضری دینے آئے۔ بلکہ روس سے باقاعدہ ایک وفد سلامی دینے آپ کی قبر پر آیا۔وفات کے بعد آپ کو اپنے آبائی گاؤں کاہلیاں موجودہ سکول میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ ک
ی قبر یونین کونسل سموٹ کے گاؤں گورنمنٹ ہائی سکول کے احاطے میں ہیں۔مشہور شاعر حبیب جالب جیسے لوگ بھی آپ کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے اور اپنی کتاب میں (عظیم دادا امیر حیدر) کے نام سے پوری نظم لکھ دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دادا امیر حیدر جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ جو ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔
ڈھونڈوں گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
پوری دنیا کا یہ شہری طبقاتی جنگ لڑتے لڑتے بلا آخر 26دسمبر 1989کو دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں