حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک ایک لاکھ چوبیس ہزار کم وبیش انبیاء ورسل علیہم السلام تشریف لائے لیکن چند کے سوا ان کے دین کی تعلیمات مکمل طور پر مٹ چکی ہیں۔ حتیٰ کہ ہم ان کے ناموں سے بھی واقف نہیں ہم صرف ان ہی انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں کے احوال جانتے ہیں
جن کا اور جتنا تذکرہ قرآن و حدیث میں آیا ہے ان کی تعلیمات مٹنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان کی امتیں ان کے بعد تفرقے و انتشار کا شکار ہو گئیں دوسرا انہوں نے ان کی تعلیمات کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں کیا تھا اور جن کی تعلیمات باقی ہیں ان میں بھی تحریف ھو چکی ہے
وہ قابل اعتبار نہیں ان کی تعلیمات مشکوک ھو چکی ہیں اس چیز کی ایک واضح مثال ہمارے پاس موجود ہے وہ یہ کہ آج جو عیسائیوں کے پاس انجیل ہے اس پر اکثر ماہرین متفق ہیں کہ یہ چاروں اناجیل 60 عیسوی سے لے کر 100 عیسوی کے درمیان میں لکھی گئیں
اور 150 عیسوی کے بعد ان بکھری ہوئی تحریروں کو انجیل کا نام دیا گیا سب سے اہم بات کسی بھی انجیل کی یہ تصدیق نہیں ہوتی کہ جس نام سے یہ منسوب ہے اسی شخص نے لکھی ہے اور وہ حرف با حرف اسی شکل میں ہے جیسے رقم ہوئی یا تغیر و تبدل ھوا چوتھی صدی عیسوی تک کئی اناجیل متداول تھیں پھر 325 عیسویں میں قسطنطین اعظم بادشاہ نے مسیحیت کو سرکاری مذہب قرار دیا
تو اس وقت اس نے ایک عالمگیر کونسل بلوائی جس کا مقصد انجیل کو مدون و مرتب کرکے کسی ایک نسخے پر متفق کرنا تھا اسی کونسل نے پہلی مرتبہ حضرت عیسی علیہ السلام کے مخلوق ہونے کو رد کرکے تثلیث (خالق کا بیٹا)کو مسیحیت کا بنیادی عقیدہ قرار دیا یہ کونسل نیقیہ میں منعقد ہوئی
جو آج کل ترکی کا حصہ ہے اسی نسبت سے اسے نیقیہ کونسل کہا جاتا ہے نیقیہ کونسل نے اس وقت جو اناجیل متداول تھیں جن کی تعداد سو کے لگ بھگ تھی ان میں سے کسی ایک پر اتفاق کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی پر ان چار اناجیل (انجیل متی انجیل مرقس انجیل لوقا انجیل یوحنا) کے سوا باقی تمام کو بدعتی اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے
غیر مسلمہ غیر مصدقہ قرار دے کر ان کے پڑھنے سے منع کر دیا ان چاروں کو اپنی مذہبی کتاب کا درجہ دے دیا ان میں بھی بے شمار تضادات پائے جاتے ہیں
آپ نے مشاہدہ کیا پہلی صدی میں ہی عیسائیت کی تعلیمات اپنی حقانیت کو کھو چکی تھیں وجہ وہی ان کی حفاظت پر توجہ نہیں دی گئی جبکہ اسلام کو آج 1400 سال سے زائد کا زمانہ بیتنے کے باوجود آج بھی تمام تر تعلیمات کی حقانیت کے ساتھ زندہ اور تابندہ ہے
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی مذہبی کتاب قران مجید فرقان حمید کو خود اپنے امتیوں کو لکھوا کر اس کو محفوظ کرنے کا بندوبست کیا پھر اس کے امتیوں نے بھی اس کی بھرپور طریقے سے حفاظت کی اسی لیے وہ بعینہ موجود ہے جس طرح نازل ہوا تھا
اسلام کی بنیاد چونکہ قران اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے تو دین کا فہم اور درد رکھنے والی عظیم ہستیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کے بالعموم اور آخری تائیس سالہ زندگی کے بالخصوص ہر ہر قول ہر ہر عمل کو تصدیق کرنے کے بعد بڑی محنت ولگن سے کتابوں میں جمع کر دیا
جس کو حدیث کہتے ہیں اور پھر اس کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک الگ فن کو مرتب کیا جس کو اصول حدیث کہتے ہیں پھر اس کے راویوں کی چھان پھٹک کے لیے ایک نئے علم کی بنیاد رکھی جس کو اسماء و رجال کا نام دیا گیا
یہ وہ علم ہے جس میں ان تمام لوگوں کے اخلاق عادات و اطوار ان کے سفر و حضر اور تعلیم و تعلم کو جمع کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث کو سن کر آگے روایت کیا ہے اس علم کی بنا پر ہم یہ جان سکتے ہیں کہ آیا یہ جو حدیث بیان کی جا رہی ہے
وہ کس درجے کی ہے اسلام نے چونکہ پوری دنیا اور تا قیامت آنے والی نسل انسانی کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ھدایت اور راہنمائی کا فریضہ انجام دینا تھا
اس لیے اس کی تعلیمات انتہائی جامع و مانع ہیں اس کے نزول کا عرصہ تقریباً تائیس سال پر محیط ہے اس لیے اس کے شرعی احکام و مسائل ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں قرآن و حدیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ کے اقوال میں بکھرے پڑے تھے یہ ناممکن تھا
کہ ہر انسان اپنی کوشش اور بصیرت سے ہر مسئلہ کو خود ہی قرآن و حدیث اور آثار صحابہ سے تلاش کرلے اسی لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ہر شخص از خود اپنی بصیرت سے قرآن وحدیث سے احکام اخذ نہیں کرتا تھا بلکہ جو عالم صحابہ کرام تھے
ان سے مسئلہ معلوم کرکے عمل کیا کرتا تھا اسی طرح ہر زمانہ میں لوگ ان علوم میں ماہر فہم و بصیرت میں اعلیٰ تقویٰ اور طہارت میں فائق اور حافظہ و ذکاوت میں اعلیٰ تھے انھی سے مسائل معلوم کرکے عمل کرتے رہے
اگر ہر کوئی خود ہی اپنے لیے راہنمائی کو قرآن و حدیث سے تلاش کرنے لگے تو گویا ایسا ہی ہو جائے گا جیسے کہ ہر شخص اپنے مرض کا علاج خود ہی طبی کتابوں میں تلاش کر لے ڈاکٹر کی اس کو ضرورت ہی نہیں اور نہ ہی ہر آدمی اتنی تعلیم فہم اور بصیرت رکھتا ہے
کہ وہ ان مسائل کا حل پا سکے اس لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ کوئی شخص اٹھے جو فہم وفراست میں بھی ادق ہوجو تقوی اور پرہیز گاری میں یکتا ہو جو اخلاق و کردار میں بھی بے مثل ہو وہ عالم ایسا ھو کہ قرآن و حدیث آثار صحابہ و تابعین ہی اس کو ازبر نہہوں بلکہ سیاست و معیشت قومی و بین الاقوامی قوانین سے کامل آگاہی رکھتا ھو وہ اٹھے اور کمر بستہ ہو کر اسلام کے ان بکھرے اور چھپے ھوئے
(جو آدمی کی نظر سے چھپے ھوئے ہیں) احکام و مسائل کو ایک منظم طریقے سے مرتب کرئے چاہے وہ احکام عقائد کے متعلق ہوں یا عبادات کے متعلق یا حقوق العباد کے متعلق یا عائلی زندگی کے متعلق یا معاشرتی زندگی کے متعلق یا اوخروی زندگی کے متعلق یا سیاست و حکومت سے متعلق یا معیشت و تجارت سے متعلق یا آئین و قانون کے متعلق یا بین القوامی تعلقات کے متعلقہوں الغرض انسانی زندگی کے کسی بھی شعبے کے متعلق ھوں ان کو جمع کرئے
جس سے عام انسانوں کے لئے آسانیاں پیدا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی پر کمال عنایات کرتے ہوئے قرون اولیٰ و وسطیٰ کے فقھاء کرام کو یہ توفیق عنایت کی کہ وہ ان احکامات کو مرتب کریں تو ان فقہائے کرام نے امت مسلمہ پر احسان کیا کہ انہوں نے شب و روز قرآن وحدیث کا غور و فکر تدبر وتفکر کے ساتھ مطالعہ کر کے ان احکام و مسائل کو نہ صرف جمع کیا بلکہ ان احکام و مسائل کو مستنبط کرنے کے اصول و ضوابط بھی قائم کیے
جن کو اصول فقہ کہتے ہیں وہ سارے علوم اور احکام ومسائل آج انتھائی ضخیم کتابوں کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہیں یہ عظیم محدث اور اسماء الرجال کے ماہرین اور ظیم فقھاء اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی کروڑوں اربوں کھربوں رحمتوں کا نزول فرمائے یہ سب ھمارے عظیم بابے ہیں یہ بابے ہماری آنکھوں کا نور اور سروں کا تاج ہیں
اگر یہ بابے اس دین کی اس طرح حفاظت نہ کرتے جس طرح انہوں نے کی ہے تو نعوذباللہ استغفرْللہ اسلام کی تعلیمات کی بھی حالت اسی طرحہوتی جیسے عیسائیت اور دیگر ادیان کیہوئی آج ان بابوں کے چھوٹے چھوٹے تسامح یا ان سے غلط منسوب باتوں یا ان کے اختلاف کو بنیاد بنا کر ان بابوں پر طعنت کیا جاتا ہے تاکہ اسلام کی بنیاد جو ان کے تقویٰ و طہارت بزرگی عدل پاک دامنی پر کھڑی ہے
ان کے متعلق مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبھات پیدا کر کے اسلام کی بنیاد کو کمزور کیا جائے اگر ان بابوں کے متعلق دل میں میل پیدا ہو گئی
شکوک و شبھات نے جنم لے لیا تو سارا دین ہی مشکوک ہو جائے گا کیونکہ یہی بابے تو اس دین کو مرتب کرنے والے اس کی سند اس کے راوی ہیں جب سند اور راوی ہی پاک دامن نہ رہے تو متن از خود کمزورہو جائے گا اس طرح دین اسلام کی عمارت گر جائے گی لیکن اہل ایمان کبھی بھی ایسی کھٹیا چالوں میں نہیں آئیں گے بلکہ اسی طرح مقابلہ کریں گے جیسے پہلے جھوٹے نبی اور منکرین حدیث کا کیا تھا یہ ہمارے عظیم بابے ہیں
جنھوں نے دن رات سوچ وچار غور وفکر محنت لگن اور اپنا آرام وسکون قربان کر کے تقویٰ و للہیت اور اپنی پاک دامنی کا پورے زمانے کو گواہ بنا کرہم تک یہ دین پہنچایا ہے انہوں نے دین کی بنیادوں کو طہارت و پاکیزگی اور گہری محبت سے اتنا مضبوط رکھا ہے کہ ان چھوٹے چھوٹے زلزلوں سے دین اسلام کی عمارت میں وقتی کچھ نقائص تو پیدا ہوسکتے ہیں لیکن یہ عمارت کبھی گر نہیں سکتی اس عظیم عمارت کو منظم کرنے والے عظیم بابوں کی عظمت و بزرگی کو سلام ہے