جمیل صاحب! پوری دنیا کے سائنسدان جمع ہو جائیں پھر بھی دریافت نہیں کر سکتے کہ یہ آفات کیوں آتی ہیں، تمہیں پتہ ہے دنیا کے تمام سائنسدان جیولوجسٹ اور سیسمالوجسٹ مل کر آٹھ اکتوبر 2005 کا زلزلہ کے بارے میں نہیں بتا سکے، کہ یہ زلزلہ کیوں آیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیسمالوجسٹ یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ زلزلہ کیسے آیا؟ ان کے مطابق زمین کی تہہ میں موجود پلیٹس، کیمیکل ری ایکشنز اور ٹمپریچر کی وجہ سے آپس میں ٹکرا گئیں، مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ کیوں ٹکرائیں؟ اور اسی کشمیر، باغ، مظفرآباد اور ملحقہ علاقوں کی تہہ میں ہی کیوں ٹکرائیں؟
عبداللہ صاحب آپ کو 2005 آٹھ اکتوبر کے زلزلہ کی اچانک کیسے یاد آگئی؟۔ ۔۔
جمیل صاحب! کشمیر, باغ، مظفرآباد ایک جنت نظیر تھا اور بلکہ ابھی بھی ہے۔ اس کے مقابلے میں لاس اینجلس بھی خوابوں کا دیس کہلاتا ہے، یہ امریکی فلم انڈسٹری کا مرکز ہے۔ لاس اینجلس امریکی ریاست کیلیفورنیا کا شہر ہے۔ یہ شہر 1847 میں امریکہ کا حصہ بنا۔ 2025 کے اوائل میں پیلاسیڈس کے علاقے میں آگ بھڑک اٹھی، اس آگ نےدیکھتے ہی دیکھتے کئی علاقے اپنی لپیٹ میں لے لیئے، امریکہ جیسی سپر پاور جس کے پاس انتہائی معیاری انتظامات موجود تھے اس کے باوجود تا دمِ تحریر اس آتشزدگی پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
اس آفت کے نقصانات کا تخمینہ اس قدر زیادہ بتایا جا رہا ہے کہ اسے امریکہ کی تاریخ کی بدترین آتشزدگی / تباہی قرار دیا ہے۔ تقریبا 15 افراد کے مرنے کی اطلاع ہے اور ایک لاکھ 80 ہزار لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی ہے۔ مزید برآں یہ کہ تقریبا اتنے ہی لوگوں کی اس شہر سے ہجرت لازم و ملزوم نظر آتی ہے۔۔۔جمیل صاحب! اس آتشزدگی سے مالی نقصان کا تخمینہ 150 بلین ڈالر لگایا جا رہا ہے۔
آپ کو معلوم ہے، 1984 کے بعد سے اب تک امریکہ میں 423 آتشزدگی کے حادثات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ ان میں سے صرف چار واقعات سردیوں میں پیش آئے ہیں اور موجودہ آتشزدگی ان سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی ہے۔۔۔بڑے بڑے سائنسدان/پائیرو ٹیکنیشنز اور فائر سائنس کے سمجھنے والے آتشزدگی کی وجہ تو بتا رہے ہیں کہ یہ کیسے لگی ہے، (یعنی اسکی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں، چونکہ 2023ـ2022 کے دوران خوب بارشیں ہوئی جس کی وجہ سے ہر طرف سبزہ ہو گیا اور پھر گزشتہ سال یہاں خشک سالی کا سما تھا، جس کے باعث یہ گھاس پھوس اور سبزہ سوکھ کر اس آگ کا ایندھن بننے لگا)
آگ پر قابو نہ پانے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ میں بے چینی کی کیفیت میں سوال کر بیٹھا۔۔۔۔
جمیل صاحب! آپ کو تو معلوم ہے کہ لاس اینجلس میں عموماً تیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں, آگ لگنے کی وجہ تو سگریٹ نوشی بجلی کا شارٹ سرکٹ ہو سکتا ہے (جیسا کہ بتایا جا رہا ہے) مگر اس کے پھیلنے کی وجہ یہاں کی تیز ہوائیں ہیں، جو معمول سے بھی تیز ہو چکی ہیں،
یہ ہائی پریشر ونڈز(ہوائیں) قریبا 150 کلومیٹر فی گھنٹہ سے چل رہی ہیں۔ اب یہ تیز ہوائیں اا آتشزدگی کو مزید پھیلانے میں کار فرماہیں۔ سائنسدان( پائرو ٹیکنیشنز) اپنے تمام تر مشاہدوں اور معلومات کی بنا پر یہ تو بتا سکتے ہیں کہ یہ آگ کیسے لگی؟ مگر ان کے لئیے یہ بتانا ناممکن ہے کہ یہ آگ لگی کیوں؟
عبداللہ صاحب! تو کیا یہ اللہ کا عذاب ہے آپ یہ کہنا چاہتے ہیں۔۔؟.
جمیل صاحب! یہ تو میرا بلکہ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر تو درخت کا پتہ بھی نہیں ہلتا! یہ تو پھر آگ ہے۔
جمیل صاحب! آگ ایک عذاب ہے یا آزمائش اس کو سمجھنے کے لیے بہت فراست کی ضرورت ہے. چند نام نہاد دانشور حضرات، بغض عناد میں اسے عذاب کہہ رہے ہیں، اور کچھ امریکی غلام اسے ایک آزمائش گر دانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آفات تو پاکستان میں بھی بہت آچکی ہیں،
زلزلے، سیلاب پاکستان میں ہر سال ہی آجاتے ہیں، اور کراچی کی فیکٹری میں لگی آگ تو یاد ہو گی جس میں 300 کے قریب بچیاں(خواتین) زندہ جل گئیں, اس طرح تو سب سے زیادہ عذاب ہم پر آرہے ہیں؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آگ امریکہ کی ریاست میں کیوں لگی، 2023- 2022 میں معمول سے زیادہ بارشیں کیوں ہوئیں؟ اور پھر ایک سال سے خشک سالی کا منظر کیوں رہا؟ اور اب آگ لگ جانے کے بعد سوکھی ہوئی گھاس پھوس کا آگ کا ایندھن کیوں بننا تھا؟ تند و تیز ہوائیں (150 کلومیٹر فی گھنٹہ) کیوں چلنا شروع ہوئیں؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
عبداللّہ صاحب! عذاب یا آفات کیوں آرہی ہیں؟ وجہ بھی بتا دیں۔۔
جمیل صاحب! حضرت علی کرم اللہ وجہ سےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میری امت 15 قسم کے کام کرنے لگے گی تو پھر اس وقت ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس طرح عذابوں کا سلسلہ شروع ہوگا جیسے کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے موتیوں کا تانتا بن جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ وہ 15 چیزیں کیا ہیں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
جب مال غنیمت کو اپنی ذاتی دولت بنا لیا جائے
امانت کو اپنے مصارف میں لایا جائے
زکوۃ کو تاوان سمجھا جائے
آدمی اپنی بیوی کا فرمانبردار بن جائے
اپنی ماں سے بد سلوکی کرے
اپنے دوست سے حسن سلوک اور والدین سے نہ کرے
اپنے والدین سے بے وفائی اور نفرت کرے
مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگے، یعنی شور و غل
سب سے کمینہ فاسق آدمی قوم کا قائد اور نمائندہ ہو
آدمی کی عزت محض اس کے ظلم اور شر سے بچنے کے لیے کی جائے.
شراب نوشی عام ہو جائے
مرد ریشم پہننے لگیں۔
گانے والی عورتیں رکھی جائیں
گانے بجانے کا سامان عام ہو جائے
امت کا پچھلا حصہ پہلے لوگوں کو لعن طعن کرنے لگے۔ ۔
عبداللہ صاحب! یہ سب علامات تو امت مسلمہ سے اللہ کی ناراضگی کے اسباب ہیں ان کے امریکہ، اسرائیل یا چائنہ تو مسلمان قومیں نہیں، اس لیے ان کے لیے عذاب کو کیسے سمجھا جائے؟
بہت خوب جمیل صاحب! دراصل غیر مسلم کے لیے مندرجہ بالا احکامات کے علاوہ ایک اضافی فعل بھی ہے جس کی وجہ سے عذاب کا کوڑا برسایا جاتا ہے اور وہ ہے سرکشی۔۔۔۔
سورہ یوسف کے آخر میں اللہ تعالی نے، انبیاء حضرات اور مختلف اقوام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ ہم نے قرآن میں ماضی کی قوموں کے واقعات کا ذکر اس لیے کیا ہے تاکہ وہ ارباب فہم و دانش کے لیے سبق اور عبرت کا ذریعہ بنے، اسکے علاوہ اللہ تعالی نے سورہ یونس میں آیت نمبر 98 میں متعدد قوموں کی سرکشی اور ان پر نازل ہونے والی تنبیہات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک قوم کے سوا ساری سرکش قومیں اپنی سرکشی پر قائم رہیں جس وجہ سے وہ عذاب کا شکار ہوئیں۔
البتہ ایک قوم جو بچ گئی وہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم تھی۔ اس قوم پر جب عذاب کے آثار نمودار ہوئے تو وہ سب کے سب اللہ کے حضور جھک گئے اور توبہ استغفار کر کے حضرت یونس پر ایمان لے آئے۔ جس سے ان پر وقتی عذاب ٹل گیا۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے (ہم نے انہیں ایک وقت تک مہلت دے دی)۔۔۔یعنی امریکہ کو سرکشی لے ڈوبی۔ فرعون، ہامان، شداد، یہ سب سرکشی کی وجہ سے عبرت کا نشان بنے۔ عبداللہ صاحب آپ ازمائش اور عذاب کا فرق کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ دونوں کی شکلیں تو ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔؟
جمیل صاحب! عذاب اور آزمائش کی شکلیں ایک جیسی ہوتی ہیں تاہم عذاب اور آزمائش سے نمٹنے یا اس سے گزرنے کے عمل سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آزمائش تھی یا عذاب! میں پہلو بدل کر ہمہ تن گوش سوچ رہا تھا یہ کیسے ممکن ہے۔ بالآخر پوچھ ہی لیا۔
وہ کیسے؟
جمیل صاحب!اللہ پاک جسے عذاب میں ڈالتا ہے اس سے ہمتیں طاقتیں اور حوصلہ سلب کر لیتا ہے، عذاب زدہ شخص ہر وقت نوحہ سناتا یا جتاتا نظر آئے گا، جبکہ اللّٰہ جسے آزمائش میں ڈالتا ہے اسے ہمتیں عطا فرماتا ہے اسکے حوصلے بڑھا دیتا ہے۔ آزمائش زدہ انسان کو آزمائش سے گزرنے کا ڈھنگ سمجھ آنے لگتا ہے۔
ع۔ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں۔
جمیل صاحب ! آپ حضرت ایوب علیہ السلام ہی کی مثال لے لیں، آزمائش کے وقت صبر و ضبط کا پیکر بنے ہوئے تھے، اللہ نے صبر اور ہمت عطا کر رکھی تھی۔ تبھی تو صبرِ ایوب بھی ضرب المثل بن چکی ہے۔ اگر عذاب ہوتا تو کیا وہ تکالیف جھیلی جا سکتی تھیں؟ خیر، نمازِعصر کا وقت ہے، اس کی تفصیل کسی اور نشست پر بیان کروں گا، یہ کہہ کر عبداللّٰہ صاحب نے الوداع کہا اور نمازِ عصر کے لیے مسجد کی طرف چل پڑے….(جمیل احمد)