عدم برداشت کے معاشرہ پر منفی اثرات

ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ذرا ذرا سے اختلافات پر لوگ ایک دوسرے کا چہرہ تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ عدم برداشت کی وجہ سے انسانوں میں رواداری، صبر و تحمل اور محبت و اخوت کے جذبات ماند پڑ جاتے ہیں۔ عدم برداشت انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی ہر لحاظ سے ہی قابل مذمت اور خطرناک ہے لیکن اجتماعی سطح پر جب کسی معاشرے میں عدم برداشت فروغ پاتی ہے تو اس کے اثرات نہایت مضر ہوتے ہیں۔ یہ معاشرے کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیتی ہے۔ عدم برداشت کا رویہ اگر قبول کر لیا جائے تو یہ زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے مثلاً لوگ کہیں ظلم و زیادتی ہوتے دیکھتے ہیں تو اسے روکنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ تماشا دیکھتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں، پھر یہ رویہ بڑھتے بڑھتے بسا اوقات ملکوں کو خانہ جنگی کی طرف لے جاتا ہے۔ خانہ جنگی ملکوں کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہوتی ہے، کئی ممالک خانہ جنگی کی وجہ سے تباہ ہو گئے۔
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ گھروں سے لیکر اقتدار کے ایوانوں تک رواداری کا شدید بحران پایا جاتا ہے۔ گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا معمول بن چکا ہے۔ بہنیں بہنوں سے لڑتی ہیں اور بھائی بھائیوں کے دست و گریباں ہیں۔ والدین کے ساتھ اولاد کی نہیں بنتی جبکہ والدین اولاد کی چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں پر شدید سرزنش کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں۔ ساس، سسر، داماد، بہو کے جھگڑوں کی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔ معمولی باتوں پر خاندان ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں اور برسوں ایک دوسرے کی صورت دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ ایک دوسرے کے خلاف سب کو بھڑکاتے رہتے ہیں، جس کی بات سنو تو وہی مظلوم دکھائی دیتا ہے، باتوں کو بڑھا چڑھا کر اور جھوٹ ملا کر بیان کرنا ایک عادت سی بن چکی ہے۔ جس کی وجہ سے کسی ثالث کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اسی طرح اگر ٹریفک کے حالات دیکھیں وہاں عدم برداشت بہت زیادہ نظر آتا ہے جہاں ذرا سی بریک لگانے پر بھی لوگ اچھا خاصہ تنازع کھڑا کر دیتے ہیں۔ کسی مذاحیہ اداکار نے کہا تھا کہ ’پاکستان میں دو گاڑیوں سے بھی ٹریفک جام ہو جاتی ہے کسی گلی میں دونوں آمنے سامنے آجائیں تو دونوں ایک دوسرے کی ضد میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہر ایک دوسرے سے گاڑی ہٹانے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے یوں ٹریفک جام ہو جاتی ہے‘۔ پھر اگر کسی کی گاڑی دوسرے کی گاڑی سے ذرا برابر ٹکرا جائے تو تب جو لڑائی ہوتی ہے وہ قابل دید ہوتی ہے۔ ہر ایک دوسرے پر سارا الزام لگا کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتا ہے یوں جھگڑا طول پکڑ جاتا ہے۔ پھر کسی تنگ جگہ میں گاڑی یا موٹر سائیکل داخل کرنا ہو تو وہاں جس طرح ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ بھی خاص طور پر دیدنی ہوتی ہے۔
ہماری سیاست میں جو عدم برداشت ہے اس کی تو مثال نہیں ملتی۔ سیاستدانوں نے سیاست میں عدم برداشت کے کلچر کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ لوگوں نے سیاست دانوں کی باتوں میں آکر ایک دوسرے سے گفتگو تک ترک کر دی ہے۔ سیاسی اختلافات کو لوگ گھروں تک لے آئے ہیں جس کی وجہ سے رشتوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ سوشل میڈیا کو سیاسی کارکنوں نے سیاسی اکھاڑا بنا رکھا ہے جس نے معاشرے میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ سوشل میڈیا کی کوئی بھی ویب سائٹ دیکھ لیں وہاں سیاسی جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ سیاسی
کارکن ایک دوسرے کو گالیں دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نہایت غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیاکے علاوہ بھی کسی محفل یا مجلس میں بیٹھے ہوں تو وہاں بھی سیاسی گفتگو چھیڑ لیتے ہیں اور معلومات تو کسی کے پاس ہوتی نہیں ہیں بس جو کچھ ادھر ادھر سے سنا صرف اس کی بنیاد پر آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ خود تو دوسروں کے رہنماؤں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن جب کوئی دوسرا ان کے رہنماؤں کے بارے میں کچھ کہہ دے تو یہ لڑ پڑتے ہیں ان سے اپنے رہنماؤں کی گستاخی برداشت نہیں ہوتی خود چاہے دوسروں کو کچھ بھی کہتے رہیں۔
اسمبلیوں میں سیاستدانوں نے عدم برداشت کو بہت زیادہ فروغ دیا ہے وہاں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے بس ایک دوسرے کی مخالفت کا ہی حلف لیا ہوا ہے، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا دوسروں پر تنقید کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ مخالفین کو اسمبلیوں میں دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے، ایک دوسرے سے بات کرنا اور ہاتھ ملانا تو بہت دور کی بات ہے، مخالفین پر حملے کرانا اور تنقید کرنے والوں پر تشدد کرنے کی بھی ہمارے معاشرے میں ایک روایت موجود ہے جو عدم برداشت کی بدترین مثال ہے۔ پھر یہی عدم برداشت کا کلچر معاشرے میں سرایت کرتا جا رہا ہے جس نے نوجوانوں پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
معاشرے میں امن و امان اور پرسکون زندگی کے لیے معاشرے میں صبر و تحمل اور رواداری کے کلچر کو فروغ دینا ہو گا۔ اس کے لیے سیاستدانوں کی طرف دیکھنے کی بجائے معاشرے کے اہم طبقات کو خود ہی آگے بڑھنا ہو گا جن میں علماء اور اساتذہ سب سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ علماء کرام ممبر سے عوام کو اچھے اخلاق اور صبر و تحمل کا درس دیں اور اساتذہ کرام طلباء کو اخلاقیات کا درس دیں اور انہیں یہ باور کرائیں کہ معاشرہ کسی بھی طرح کے فتنے اور فسادات کا متحمل نہیں ہو سکتا لہٰذا کسی بھی سیاسی لیڈر کی باتوں آکر آپس کے تعلقات خراب مت کریں،اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ اساتذہ اور علماء کرام کسی خاص سیاسی رہنما کا نام نہ لیں بلکہ سب کا برابری کی سطح پر تذکرہ کریں۔ اسی طرح معاشرے کے پڑھے لکھے نوجوان خود بھی تھوڑا سا سوچیں اور سیاسی رہنماؤں کی باتوں میں آنے کی بجائے خود ہی ہر چیز کا بغور جائزہ لے کر حقائق کے مطابق چلیں اور کسی بھی سیاسی رہنما کی اس حد تک تقلید مت کریں کہ اس کی ہر غلط بات بھی درست معلوم ہونے لگے۔یوں وہ معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی اور عدم برداشت کا خود خاتمہ کر سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں