عبیدالرحمن ہزاروی گلشن نما مردِ آہن

عبید الرحمن ہزاروی کے والد گرامی محبوب الرحمن ہزاروی کے بارے میں بہت سنا ئے بس مل نہ سکا اور یہ خواہش اب کبھی پوری نہ ہو گی۔ کاش ان سے ملاقات ہو جاتی تو آج عبید الرحمن ہزاروی کا خوبصورت کردار مزید تابندہ ہوتا دکھائی دیتا۔ عبید بھائی انتہائی ملنسار اور بہترین اخلاق کا ایک گلشن نما مرد آہن ہے جو چاروں طرف خوشبوئیں بکھیرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ہر وقت ہشاش بشاش رہنے والا یہ انسان بچوں کے ساتھ چار برس کا بچہ اور لڑکوں کے ساتھ لڑکپن بکھیرتا نوجوان اور بزرگوں کے ساتھ ہو تو سب سے زیادہ سبق بکھیرتا ہوا برکتوں والا بوڑھا شخص نظر آئے گا۔ کبھی کبھی تو میں اس دوست کو دیکھ کر حیران و ششدر ہو کر رہ جاتا ہوں کہ یہ ایک طرف لاکھوں نونہالوں کا معلم اور دوسری طرف ایک عام سا طالب علم بن کر ہر وقت سیکھنے کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ کبھی یہ بھائی عام سے لباس میں ملبوس ہو کر ایک ننہا سا چند برس کا بچہ نظر آتا ہے تو کبھی ملک پاکستان کے معماروں کا استاد نظر آتا ہے۔ زندگی کے ہر میدان میں یوں محنت کرتا ہے کہ جیسے ہر میدان کا بادشاہ یہ مرد قلندر عبید الرحمن ہے۔دوستوں کا دوست ملک پاکستان کے دشمنوں کا دشمن میرا یہ بھائی دونوں صورتوں میں یک ترو تازہ آتا ہے۔ منافق انسان سے کبھی بات نہیں کرتا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ دشمن سے تو صلح ہو سکتی ہے مگر منافق سے ہر گز نہیں۔ کسی شاعر نے ایسے انسان کے بارے میں کیا خوب کہا کہ
میرا دشمن مجھے کمزور سمجھنے والا
مجھ کو دیکھے کبھی تاریخ کے آئینے میں
معرکہ بدر میں کردار نبی ہوتا ہوں
دشت کربل ہو تو میں ابن علی ہوتا ہوں
عبید بھائی انتہائی سلجھے ہوئے اور حق بات پر ڈٹ جانے والے سپہ سالار کی مانند ہیں جو نہ تو بکتا ہے اور نہ ہی خدا کے علاوہ کسی کے سامنے جھکتا ہے۔ سچ کا ساتھ کچھ اس طرح دیتا ہے کہ ایک طرف اگر اسکا قریب ترین رشتے دار ہو اور دوسری طرف کوئی غیر ہو۔ اگر کوئی اجنبی حق پر ہو تو عبید بھائی اپنے بھائی کو چھوڑ کر دوسرے شخص کا ساتھ دیکر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ برائی کے کندھے کو ہر گز نہیں تھپتھپائیں گے بلکہ وہ اچھائی کا ساتھ دے کر اس دنیا میں بھی سرخرو اور آخرت میں بھی کامیاب ترین ٹھہریں گے۔ آج کل آپ عبید پبلک سکول کے نام سے ایک بہترین ادارہ چلا رہے ہیں جہاں الجھے ہوئے بچوں کو سلجھایا جا ریا ہے اور سلجھے ہوئے بچوں کو مزید کامیاب و کامگار بنایا جا رہا ہے۔ جب کینٹ بورڈ والوں نے ان کا سکول سیل کیا تو یہ مرد قلندر بند سکول کے دروازے کے سامنے مین روڈ پر ایک پنچ پر بیٹھا رہتا اور کبھی سکول کے دروازے کبھی سکول کی دیواروں کو دیکھتا تو کبھی اپنے استاد ہونے پر پچھتاوا محسوس کرتا مگر چند ہی لمحوں بعد پھر سے امید کی ایک نئی کرن کے ساتھ مسکراہٹ بکھیرتا نظر آتا۔ جب انکے سکول کو تالے لگائے گئے تو میں اکثر عبید بھائی کو حوصلہ دینے اسی پنچ پر بیٹھ جاتا جو ان کے سکول کے دروازے پر عبید بھائی کے دکھ میں چپ سادھے کھلی آنکھوں سے ملک پاکستان کے استادوں پر ہونے والے مظالم کو دیکھ رہا ہوتا تھا۔ یاد رہے کہ ان دنوں کرونا کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں کی حالت زار دیکھی نہیں جا رہی تھی تو دوسری طرف کینٹ کے سکولوں کو بار بار بند کر کے پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا جا رہا تھا۔ پاکستان میں تقریباً ہزاروں کی تعداد میں سکول بند ہوئے اور بے شمار سکول مالکان کو دل کے دورے پڑے مگر کسی نے اساتید مکرم کو ریلیف نہ دیا۔ اسی وجہ سے کچھ ہیرے نما دوست ہم جب کو چھوڑ کر ابدی زندگی کے مسافر بن گئے۔ عبید بھائی کے حوصلے اور جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں کہ وہ اس معاز پر ڈٹے رہے کبھی ہمت نہ ہاری مگر یاد رہے کہ عبید بھائی اندر سے چور چور ہو چکے تھے مگر اپنا دکھ اس لیئے ظاہر نہیں کیا کہ کچھ اپنے بھی کہیں حوصلہ نہ کھو دیں۔اس شخصیت پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر کیا کروں کہ یہ انسان انسانوں کا ہاتھ پاؤں اور ناخن تک ہے لہذا جاتے جاتے بس اتنا کہوں گا کہ
تو ساتھ چلے تو آہٹ بھی نہ آئے اپنی
درمیان ہم بھی نہ ہوں یوں تجھے تنہا چاہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں