عبداللہ فاونڈیشن کے زیر اہتمام محفل مشاعرہ

08جنوری، ہفتہ کی شام کو راولپنڈی میں عبداللہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام پوٹھوہار ینگ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے اعزاز میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ مشاعرے میں راولپنڈی، اسلام آباد اور گرد و نواح سے بڑی تعداد میں نوجوان صحافیوں اور شعراء نے شرکت کی، یہ مشاعرہ اس لحاظ سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں نئے شعراء کو اپنا کلام سنانے کا بھر پور موقع ملا، حاضرین نے خوب داد دے کر ان کی ہمت افزائی کی۔ اس مشاعرے میں شرکت کے بعد مجھے مشاعروں کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ ہوااور میں نے مشاعرے سے واپسی پر پوٹھوہار ینگ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے چیئر مین جناب بابر اورنگ زیب چوہدری صاحب سے تنظیم کے زیر اہتمام مشاعرہ منعقد کرانے کی درخواست کی اس مشاعرے میں بہت سے نوجوان اور نئے شعراء شریک ہوئے جنہوں نے ایک سے بڑھ کر ایک اشعار پیش کیے جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ہمارے نوجوانوں میں کتنی صلاحیت ہے صرف اسے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور اسے اجاگر کرنے کے ضروری ہے کہ انہیں اپنا فن پیش کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں جہاں وہ بڑوں کے سامنے اپنا فنرکھیں جو ان کی اصلاح بھی کریں اور حوصلہ افزائی بھی۔ ایسے ہی جب عوام انہیں سنیں گے اور انہیں داد دیں گے تو یقینا ان میں مزید لکھنے اور پڑھنے کا حوصلہ پیدا ہو گا۔ اس مشاعرے میں زیادہ تر نئے شعراء تھے، چند بڑے اور تجربہ کار شعراء بھی موجود تھے جنہوں نے نئے شعراء کی بہت حوصلہ افزائی کی۔مشاعرے کے صدر جناب احمد رضا راجہ صاحب نے آخر میں اپنا کلام پیش کیا، ان کے اشعار نے تومشاعرے میں جان ڈال دی۔ ان کی ایک غزل مجھ جیسے باغیانہ طبیعت رکھنے والے شخص کو بہت پسند آئی، اس کے چند اشعار کالم کے اختتام پر پیش کروں گا۔ راقم الحروف نے بھی اپنی ایک بالکل تازہ نظم پیش کی۔ سب نے ایک سے بڑھ کر ایک کلام پیش کرنے کوشش کی لیکن بعض شعراء نے تو کمال ہی کر دیا۔ ان کے بہترین تخیل اور انداز بیاں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ اگر انہیں تھوڑا سا نم کیا جائے تو بہت ذرخیز ثابت ہوں۔ کیسے کیسے ہیرے ہمارے گلی محلوں میں پوشیدہ ہیں اور گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے باصلاحیت افراد کو اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے کے مواقع میسر نہیں ہیں۔ اردو ادب ہمارے معاشرے میں سوتیلے پن کا شکار ہے،ہم نے انگریزی کو اتنی اہمیت اور ترجیح دی ہے کہ اردو زبان کو تباہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم انگریزی کیوں سیکھتے ہیں؟ زبانیں سیکھنا تو اچھی بات ہے لیکن اس پر بے جا فخر کرنا اس میں قباحت پیدا کر دیتا ہے پھر اس میں زیادہ خرابی اس وقت آجاتی ہے جب اردو بولنے والوں کو جاہل اور انگریزی کے دو لفظ بولنے والوں کو پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے۔ یہ تو ہماری ناقص سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم ایک زبان کی بنیاد پر لوگوں کے علم کو پرکھتے ہیں۔ اگر انگریزی زبان ہی تعلیم کا معیار ہے تو امریکہ و برطانیہ میں وہ لوگ بھی فر فر انگریزی بولتے ہیں جو کبھی کسی تعلیمی ادارے میں گئے ہی نہیں ہیں تو ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟ اس لیے سمجھ لینا چاہیے کہ جیسے اردو ایک زبان ہے ویسے ہی انگریزی بھی۔ لہٰذا بتکلف اردو میں انگریزی کو شامل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اردو کو خالص رکھنا چاہیے اور انگریزی کو بھی۔ اردو تو بہت میٹھی زبان ہے جو شخص اچھی اردو بولتا ہو اس کی گفتگو سننے کا مزہ آتاہے۔ اردو کے فروغ کے لیے کوشش کرنی چاہیے جس میں مشاعرے بہت معاون ثابت ہوتے ہیں مشاعرے اردو ادب کے فروغ کے لیے بہت ضروری ہیں، یہ صرف محفل، شعر و سخن کی مجلس اور تفریح کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ایک ادارے کا کام بھی دیتے ہیں جو لوگوں میں زبان و ادب کو فروغ دیتے ہیں۔ عوام کا رشتہ اپنی زبان سے
جوڑتے ہیں، ان میں زبان و ادب کے بارے میں شعور پیدا کرتے ہیں، نئی نسل کا رشتہ اپنی زبان سے جوڑتے ہیں۔ نوجوانوں میں ادبی ذوق پیدا کرتے ہیں، پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ یہی مشاعرے نئے اور باصلاحیت چہرے سامنے لاتے ہیں۔ جو اپنے فن میں ماہر ہوتے ہیں لیکن انہیں کوئی نہیں جانتا، اگر مشاعرے نہ ہوں تو ان نوجوانوں کی صلاحیتیں زنگ آلودہ ہو جائیں اور ان کا ہنر ان کی ڈائریوں تک محدود رہے۔ زبان و ادب کے فروغ کے لیے مشاعرے کرانا وقت کی ضرورت ہے، ہمارے ہاں مشاعروں کا رواج رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے جسے دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے تمام علمی و ادبی تنظیموں اور اداروں بالخصوص تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے مشاعروں کا وقتاً فوقتاً اہتمام کرتے رہیں تا کہ نیا ہنر سامنے آتا رہے۔ نوجوان شعراء و ادباء کی حوصلہ افزائی ہو اور اردو زبان کو فروغ ملے۔ آخر میں احمد رضا راجہ صاحب کے چند اشعار پیش خدمت ہیں
یہ وقت بھی لانا تھا ایک دن، ترے کام نے ترے سامنے
ترا طوق اتار کے رکھ دیاہے، غلام نے ترے سامنے
ترے ظلم نے جو لگائی تھی، مرے شہر میں اسی آگ سے
ترا تاج و تخت جلا دیا ہے، عوام نے ترے سامنے
مرے خوش گماں! ترا ہاتھ چھوڑ کے دیکھ لے،میں گرا نہیں
کہ تمام شہر لپک پڑا، مجھے تھامنے ترے سامنے

اپنا تبصرہ بھیجیں