
جناب عبدالغفور، مصنفِ افسانہ ءحجاز (سفر نامہ حج) سے پہلی نیازمندی ممتاز سیرت نگار پروفیسر تفاخر محمود گوندل کی وساطت سے نصیب ہوئی۔ اگرچہ یہ محض ایک تعارفی ملاقات تھی مگر اُن کی بے حد سادہ دلی ،عمیق انکساری اور سراپا محبت نے دل کو یوں چھو لیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے ایک خوشگوار یاد او رایک عزیز رفاقت بن گئے۔ان کی گفتگو میں بناوٹ تھی نہ لہجے میں کسی بڑے دعوے یا خودنمائی کی کوئی کھنک۔ بس سراپا عاجزی اور وقار کی مجسم تصویر۔
افسانہ ءحجاز کے اوراق پلٹنے شروع کیے توا ُن کی تحریر بھی اُن کی شخصیت کا عین عکس پائی۔سادگی اور اخلاص کا ایک حسین امتزاج۔ جس میں تصنع کی جھلک ہے نہ کسی بڑے بول کا تکبر۔ بس وہ ایک گوشت پوست کا سادہ لوح انسان ہیں جن کے باطن میں مدنی کریم ﷺ کی حیات بخش وادیوں سے محبت و عقیدت کے زمزمے جس بے کراں وارفتگی اور نیازمندی سے پھوٹتے ہیں وہ خلوص اور پاکیزگی کے ساتھ اسی جذب و کیف کے ساتھ لفظوں کی صورت انھیں صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے جاتے ہیں اور انداز بیاں ایسا مسکین و عاجزانہ جیسے کوئی قطرہ ، سمندر کی وسعت کو بیان کرنے کی کوشش میں ہو۔
ذاتی تجربے کی بات کروں تو افسانہ ءحجاز کے اوراق جوں جوں پلٹتا گیا ، ایک لطیف سا کیف و سرور دل کو آہستہ آہستہ اپنے حصار میں لیتا چلا گیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے جناب عبدالغفور سے چند لمحوں پر محیط وہ مختصر سی ملاقات محض ایک رسمی تعارف نہ تھی بلکہ ایک ابدی تعلق کا پیش خیمہ تھی جیسے کسی ان دیکھے رشتے کی نازک ڈور خاموشی سے دل کے گرد لپیٹ دی گئی ہو اور ہر ورق کی سرسراہٹ اس ڈور کو اور بھی مضبوط کرتی جا رہی ہو۔ اللہ اللہ! کیا آج کے اس مادیت گزیدہ دور میں ،جہاں دل دنیاوی حرص و ہوس کے بوجھ تلے دب کر پتھر ہو گئے ہیں،
واقعی کسی کے ہاں ایسی والہانہ محبت، ایسی وارفتگی اور ایسی سرشاری ممکن ہے جو عقل کو حیرت میں ڈال دے اور روح کو لرزا دے؟ افسانہ حجاز کا ہر جملہ، ہر سانس لیتا صفحہ اور ہر حرف یہ گواہی دیتا محسوس ہوتا ہے کہ عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی وہ پاکیزہ اور سرمدی آگ ،جس کی لو صدیوں پہلے صحابہ کرامؓ اور اولیائے کاملین کے دلوں کو روشن کیے ہوئے تھی ، آج بھی کچھ پاکباز قلوب میں اسی حرارت اور تابندگی کے ساتھ دہک رہی ہے اور روح خوشی اور حسرت کے ملے جلے جذبات سے اس وقت سرشار ہو اٹھتی ہے جب یہ احساس جاگتا ہے کہ اس دورِ زوال میں بھی ایسے نفوسِ قدسیہ موجود ہیں جن کی زندگی کا ہر لمحہ، ہر سانس اور ہر خواب عشق رسول ﷺ کے نور سے اس طرح مشک بار ہے جیسے ان کے وجود کے ذرے ذرے سے درود و سلام کی مہک پھوٹ رہی ہو۔
یہ حیرت اور استعجاب اُس وقت اپنی انتہاؤں کو چھو لیتا ہے جب محبت و عقیدت کا یہ منفرد انداز صرف مصنفِ محترم، جنابِ عبدالغفور تک محدود دکھائی نہیں دیتا بلکہ ایک ایسے روحانی ورثے کی صورت سامنے آتا ہے جو ان کے پورے گھرانے کے رگ و پے میں اس طرح رواں دواں ہے جیسے خون جسم میں گردش کرتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ گھر محض اینٹوں اور دیواروں کا ڈھانچہ نہیں بلکہ عشق و عقیدت کا ایک زندہ و جاوید مرکز ہے جہاں ہر دل ایک ہی درد کے ساتھ دھڑکتا ہے اور ہر آنکھ ایک ہی خواب کے دریچے میں جھانکتی ہے۔ وہی خواب ہے جو نسلوں سے دلوں کی گہرائیوں میں پنپ رہا ہے ۔ اللہ کے گھر کعبة اللہ کی جلالی فضا میں عاجزی و نیاز کے ساتھ سجدہ ریز ہونے کا خواب اور مدنی
کریم ﷺ کے درِ اقدس پر حاضری کا وہ سرمدی خواب جہاں بندہ اپنی تمام ہستی کو نچھاور کر کے محبوبِ خدا کے حضور سراپا عشق و عقیدت بن جائے۔افسانہ ءحجاز کے جیسے جیسے ورق کھلتے جائیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زمان و مکان کی ساری حدیں مٹ رہی ہوں فاصلے سمٹ کر معدوم ہو رہے ہوں ور روح ایک ایسے ماورائی سفر پر روانہ ہو رہی ہو جس کی منزل مکہ معظمہ کا جلالی وقار اور مدینہ طیبہ کی جمالیاتی حلاوت ہے۔ کتاب میں عشق و سرود سے مرقع یہ کیفیت کچھ ایسا پر کیف انداز بیان لیے ہوئے ہے جو مصنف کے دل کی اُن دھڑکنوں کو بیان کرتا ہے جو عشق و عقیدت کی نغمگی سے لبریز مدینہ کی پاکیزہ فضاؤں میں تحلیل ہو کر ایک عا شق صادق کے دل کو اپنی سحر انگیز ہم آہنگی میں سمیٹ لیتی ہیں۔
عقیدت و محبت کے موتیوں میں پروئے یہ الفاظ بارگاہِ خداوندی میں اس درجہ مقبولیت پا لیتے ہیں کہ کتاب پڑھنے والا ایک قاری بھی رفتہ رفتہ صفحات کی دنیا سے نکل کر ایک ایسے روحانی سفر پر گامزن ہو جاتا ہے جہاں لفظ محض لفظ نہیں رہتے بلکہ سانس لیتے ہوئے جذبات اور جیتے جاگتے لمحات بن جاتے ہیں۔ پھر یہی مسافر خود کو کبھی مقامِ ابراہیم کے سامنے کھڑا پاتا ہے، جہاں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی لازوال قربانیوں کی خوشبو اور ان کی یادوں کی حرارت دل کو سرشار کر رہی ہوتی ہے، کبھی وہ حطیم کے دائرے میں جھکی ہوئی پیشانی اور لرزتے ہوئے دل کے ساتھ سکونِ قلب سمیٹ رہا ہوتا ہے اور پھر اگلے ہی لمحے خود کو ریاض الجنة کی سبز اور پاکیزہ فضاؤں میں سانس لیتا محسوس کرتا ہے، جہاں گنبدِ خضریٰ کی مشکبار خوشبوئیں دل کی وادیوں میں اتر کر انہیں سکونِ ابدی عطا کر رہی ہیں۔
افسانہ ءحجاز کا ہر صفحہ، بلاشبہ جناب عبدالغفور کے دل کے کسی نہاں گوشے کا دریچہ وا کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ ہر لفظ اُن کے باطن میں سلگتے عشق اور دبے ہوئے درد کی ایک ان دیکھی صدا بن کر قاری کے دل کی تہہ میں اترتا ہے اور ایسی بے نام سی تڑپ کو جنم دیتا ہے جو بلاشبہ روح کو مسلسل بے قرار رکھتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ محض الفاظ کا سلسلہ نہیں بلکہ ایک دھڑکتا ہوا دل ہے جو حرفوں کا لبادہ اوڑھ کر قاری سے ہمکلام ہے۔ ہر جملہ کسی خاموش چیخ، ہر صفحہ کسی دبی ہوئی آہ اور ہر لفظ کسی جلتی ہوئی شمع کا استعارہ بن جاتا ہے۔
ایسے میں ایک قاری کے دل میں یہ سوال سر اُٹھاتا ہےکہ کیا اس کیف آور سرشاری کو محض پڑھ کر جاننے پر اکتفا کیا جائے؟ یا کیوں نہ ایک بار پھر، چودھری عبدالغفور صاحب کے قرب کی اُس بابرکت نشست میں جا بیٹھا جائے جہاں اُن کے لہجے سے پھوٹتے عشق اور وارفتگی کے سوز کو براہِ راست محسوس کیا جا سکے! تاکہ وہ جذبات اور کیفیات جو کاغذ پر محض عکس کی صورت جھلملاتے ہیں اپنی اصل حقیقت کے ساتھ اپنی تما تر رعناعیوں کے ساتھ آشکار ہوں۔ جہاں الفاظ خوشبو بن کر فضا میں تحلیل ہو جائیں اور ہر لمحہ ایک زندہ اور سانس لیتا ہوا تجربہ بن جائے۔
تحریر: ندیم اختر غزالی