227

عبدالرحمن مرزا۔۔۔عزم و استقامت کا پہاڑ

عبدالستارنیازی/قارئین کرام! تاریخ ان لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے جو کسی ایک جگہ ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں، بار بار جگہیں تبدیل کرنے والے تاریخ کے مسخ شدہ بابوں کی زینت بن جاتے ہیں، جگہ تبدیل کرنا بھی کئی ایک طریقوں پر منحصر ہوتاہے، سیاست ہو، صحافت، سماج یا معاشرہ، اس دنیا سے کوچ کرجانے والوں کو تبھی یاد رکھا جاتاہے جب ان میں کوئی خوبی یا اچھی صفت پائی جاتی ہو، ماہ ربیع الاول کا چاند جب طلوع ہوتاہے تو ہر طرف خوشیوں کی بہار آجاتی ہے اور کیوں خوشیوں کی بہار نہ آئے جب اس ماہ مبارک میں اللہ رب العزت نے اپنا پیارا محبوب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس دنیا میں بھیجا اور پوری کائنات میں اس ماہ میں بیٹے بانٹے تاکہ ہر کوئی خوشی منائے، غم کسی کے حصے میں نہ آئے، پھر جب 11ربیع الاول کا دن، شب، 12ربیع الاول کا دن آتاہے تو ان خوشیوں میں مزید اضافہ ہوجاتاہے، کیک کاٹے جاتے ہیں، آتشبازی کی جاتی ہے، لنگر پکائے اور کھلائے جاتے ہیں، جلوس نکالے جاتے ہیں اور اس عظیم خوشی کو منانے کیلئے طرح طرح کے انداز اپنائے جاتے ہیں، ان دو مبارک ایام میں دنیا سے جانے والے بھی خوش قسمت ترین تصور کئے جاتے ہیں، اس بار 11ربیع الاول کے دن جب خبر ملی کہ عبدالرحمن مرزا اس جہان فانی سے کوچ کر گئے تو خوشی کے دن بہت افسوس ہوا لیکن پھر قسمت پر رشک بھی آیا کہ کیسے دن کا انتخاب رب کائنات نے فرمایا جمعرات اور جمعہ کا دن بھی خوش نصیبوں کے حصے میں آتے ہیں، جمعہ افضل ترین دن ہے اور اسے سیدالایام کہا گیا ہے اور پھر سونے پہ سہاگہ اگر 12ربیع الاول بھی جمعہ کے دن ہو تو برکتیں اور رحمتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں، اس جمعرات 11ربیع الاول دن کے وقت عبدالرحمن مرزا کا انتقال ہوا اور اگلے دن 12ربیع الاول بروز جمعتہ المبارک دن کے وقت قبل از جمعہ نماز جنازہ کی ادائیگی کی گئی، عبدالرحمن مرزا کا نماز جنازہ بھی تاریخی تھا، راجہ پرویز اشرف نے اپنے دیرینہ ساتھی کے نماز جنازہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، عبدالرحمن مرزا زمانہ طالبعلمی سے پیپلز پارٹی کے جیالے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات اور خیالات کے دیوانے تھے، زمانہ طالب علمی میں جیلیں جھیلیں، مارشل لاء ادوار میں ماریں کھائیں مگر اپنی پارٹی سے غداری نہیں کی، کسی بھی مشکل ترین دور میں پارٹی کیساتھ کھڑے ہونے والوں کی تاریخ میں عبدالرحمن مرزا کا نام سنہری حروف سے لکھا جاچکاہے،عبدالرحمن مرزا کی نماز جنازہ کے موقع پر نظریاتی کارکنان بہت رنجیدہ تھے کیونکہ ان کی سرپرستی کرنے والا آج منوں مٹی تلے دفن ہونے جارہا تھا، راقم کیساتھ ان کی محبت دیرینہ تھی، چند یوم قبل دفتر ان کی آمد ہوئی تو حسب سابق انہوں نے بہت محبتوں کا اظہار کیا اور مٹھائی منگواکر اپنے ہاتھوں سے کھلائی، کہنے لگے میں آپ جیسے دوستوں کی محبتوں کا مقروض رہوں گا اور میں اس طبقے کی آواز ہوں جنہیں اشرافیہ نے ہمیشہ دبانے کی کوشش کی، میں نے اپنا معیار برقرار رکھا اور اپنے دوستوں کیساتھ تعلق پر کبھی آنچ نہیں آنے دی، صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے،دوران گفتگو سید آل عمران مرحوم کا ذکر ہوا تو کہنے لگا بہت زندہ دل شخصیت سے گوجرخان محروم ہوگیا جس نے اپنے علاقے کیلئے بہت کام کیا، عبدالرحمن مرزا فی البدیہہ مقرر تھے اور الفاظ کو ناپ تول، جانچ پرکھ کر بولنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھا جاتا تھا، آج اس دنیا سے چلے جانے کے بعد سارے لوگ انہیں اچھے الفاظ میں یادکررہے ہیں تو ان کا بہترین اخلاق ان کیلئے صدقہ جاریہ بن چکاہے، دعاگو ہیں کہ مالک کائنات ان کی تمام منازل آسان فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔ والسلام

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں