280

عامر آزاد اور ان کی پوٹھوہاری شاعری

پوٹھوہاری زبان کے مزاحمتی انداز کے خوبصورت شاعر ادیب اور ٹیکسلا واہ کینٹ کی متحرک ادبی شخصیت عامر رضوان جن کا قلمی نام عامر آزاد ولد خیر زمان خان جدون کا تعلق ٹیکسلا کے گاؤں سموں گڑھی افغاناں سے ہے جب کہ ان کی تاریخ پیدائش 11 اپریل 1978ہے ادبی خدمات ادب اور موسیقی سے محبت ان کے خمیر میں رچی بسی ہے انہوں نے ادب کے فروغ کے لیے 2004 میں ادبی تنظیم نئے افق ٹیکسلا کی بنیاد رکھی اور اس کے زیر اہتمام صرف 4 مشاعرے ہی کروائے تھے کہ حالات نے ایسے کروٹ بدلی کہ وہ فکر معاش میں ایسے اُلجھے کہ ادب اور ادبی دنیا سے دور ہوکے رہ گئے

لیکن تمام مصروفیات اور اُلجھنوں کے باوجود ان کے خمیر میں ادب کی چنگاری نہ بجھی اور نہ ہی انہوں نے اس کو بجھنے دیا یہ الگ بات تھی کہ ادبی سرگرمیاں بالکل ہی ختم ہو گئیں۔2017 میں ٹیکسلا کچہری میں اپنی فکر معاش میں مگن تھے کہ پھر سے ادب اور موسیقی سے لگاؤ کی چنگاری شعلہ بن کر بھڑکنے لگی شاید ان کو کچہری میں کوئی ادبی ماحول نظر آیا تو اپنی ادبی تنظیم نئے افق کی دوبارہ تشکیل نو کی اس تشکیل نو میں نئے افق کے جنرل سیکرٹری ثاقب جاوید جوائنٹ سیکرٹری قاضی شیراز سیکرٹری نشرو اشاعت راحت علی خان منتخب ہوئے

جبکہ مجلس عاملہ کا افتخار یونس،شاہد رحمان،تصور حسین تصور، صدام حسین،شکوراحسن،یاسرمشتاق،عاصم کیا نی، نا صر حسین مستجاب،یاسر رشید، مبشر حسین مبشر اور فرحان عباس بابر کا بھی انتخاب کیا گیا اور عامر آزاد بطور بانی و چیئرمین ٹیکسلا اور واہ کینٹ میں اردو پوٹھوہاری ہندکو پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے خدمات سر انجام دینے لگے پھر ایسے متحرک ہوئے کہ نئے افق کے زیر اہتمام ماہانہ محفل مشاعرہ کا آغاز کر دیا اور مسلسل 17 ماہانہ مشاعرے منعقد کروانے کا نیا ریکارڈ بنا ڈالا اس سے یہ ہوا کہ پورا پوٹھوہار متحرک ہو گیا ان مشاعروں میں پوٹھوہار کے علاوہ ہری پور اٹک پشا ورکے شعر ا بھر پور شرکت کرتے یہاں نہ صرف مشاعروں کا اہتمام کیا جاتا

بلکہ مزاحمتی شاعر جناب مظہر حسین سید کی کتاب ”سکوت“ کی شاندار تقریب رونمائی کے علاوہ کئی دوسری کتابوں کی تقریبات رونمائی اور نوجوان شعرا کے ساتھ بھر پور شامیں منانے جیسے اہم پرو گر ا م بھی منعقد کروائے گئے، اس کے علاوہ نہ صرف خود بلکہ اپنی تنظیم کے عہد ید ا ر ا ن کے ساتھ حلقہ سخن پوٹھوہار واہ کینٹ،حلقہ تخلیق ادب ٹیکسلا انجمن ادب پوٹھوہار واہ کینٹ صریر خامہ واہ کینٹ دیار ادب ٹیکسلا مودت ٹیکسلا کی ہر ادبی محفل میں بھر پور شرکت بھی کرتے۔ کئی بار حلقہ سخن پوٹھوہار اور حلقہ تخلیق ادب ٹیکسلا میں میں بطور سیکر ٹر ی نشرو ا شا عت اپنے فرائض سر انجام دے چکے ہیں اور گوجر خان راولپنڈی اسلام آ با د ہری پور کے مشا عر و ں میں خصوصی شرکت بھی کرتے رہتے ہیں۔پوٹھوہاری شاعری اردو شاعری کے ساتھ ساتھ وہ پوٹھوہاری زبان میں بہت خوبصورت غزل کہنا شروع ہو گئے ہیں

اور جب اُنہوں نے اپنا کلام تحت اللفظ اور سریلی آواز میں ترنم کیساتھ مشاعروں میں پیش کیا تو خوب پذیرائی ملی آپ کی شاعری میں مزاحمت کا رنگ نمایاں ہے ان کے چند اشعار بطور نمونہ پیش خدمت ہیں
یاد نے دیئے بالی چھوڑے
عشقے جثے گالی چھوڑے
ہنڑ باغیچہ آپوں تکساں
ایویں اتنے مالی چھوڑے
تساں ماریوں اج تک عامر
بہوں بہوں منصب عالی چھوڑے
ان کی پوٹھوہاری غزل کی دھوم تو پورے پوٹھوہار میں ہے اسی لیے اُن کو ہر شعر پر خوب داد بھی ملتی ہے ایسی مزاحمتی شاعری اپنے دور کی مکمل ترجمانی کرتی ہے اور یہی مزاحمتی شاعری ادب کی نمائندہ شاعری کہلاتی ہے اور معیاری ادب میں بطور نمونہ پیش کی جاتی ہے اس شاعری کا مطالعہ کر کے معلوم پڑتا ہے کہ شاعر اپنے معاشرے سے کتنا جڑا ہوا ہے اور پھر یہ ظالم کے آگے کلمہ جق بلند بھی کرنا جانتا ہے
یاد تیری ناں دیوا بلیا
نہیرا اکھیاں اگوں ٹلیا
بنی وچ میں پھیکر تاری
کج تے سنگیا پانڑی ہلیا
خاناں نے ہتھ میں ای روکے
انہاں اگے میں ای کھلتا
یہ شعر اصلاحی پہلو کی عکاسی کر رہے ہیں پھر معاشرے میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اب وقت ہے کہ اچھا نتیجہ حاصل کرنے کے لیے سوچ بدلنی پڑے گی اس کے بغیر زندگی میں مثبت تبدیلی نہیں آ سکتی
سوچ اپنڑیں بدلانڑیں پیسی
کوڑی گولی کھانڑیں پیسن
سُکے بوٹے کڈنڑیں پیسن
نویں پنیری لانڑیں پیسی
امید ہے یہ پوٹھوہاری زبان و ادب کے فروغ اور بقا میں اسی طرح
کردار ادا کرتے رہیں گیاور اس تحریر میں منتخب اشعار کی طرح مزید زندہ رہنے والا ادب تخلیق کرتے رہیں گے جو ہر اچھے ادبی حلقے میں بطور نمونہ پیش کیا جاتا رہے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں