50

عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی

اگر اسرائیل کی طرف سے اب تک اس قدر بربریت دکھائی جا چکی ہے تو ان کے لیے یہ مشکل یا ناممکن تو نہیں ہے کہ وہ صفحہ ہستی سے مٹا دیں اورجو لوگ زندہ ہیں انکو بھی زمین بوس کر دیں, جنہوں نے اب تک نہتے شہریوں کے جسموں کے پرخچے اڑا دیے یہاں تک کہ ان کے وجود کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ گلاب کی مانند سرخ گالوں والے بچوں کو ڈھانچہ بنا دیا انکو فاقوں اور کرب میں مبتلا کر دیا تو انکے یہ بھی مشکل تو نہیں کہ باقیوں کو بھی کچھ ہی لمحوں میں ادھ موا کر دیں, ان کا مقصد صرف فلسطین کی سرزمین پر قابض ہونا ہی نہیں ہے بلکہ مسلم ممالک کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ پاور میں ہیں, وہ یہ سب کر سکتے ہیں اور اس سے زیادہ بھی گھٹیا طریقے استعمال کر سکتے ہیں

وہ مسلم ممالک کو نفسیاتی طور پر یہ کربلا جیسے درد ناک مناظر دکھا رہے ہیں, کہ وہ یہ دیکھیں وہ اس ظلم اور بربریت کو سہہ کر خاموشی اختیار کریں۔ بیشک انہوں نے ناگاساگی اور ہیرو شیما جیسی تاریخ دھرا دی ہے جو اپنے نقوش چھوڑ رہی ہے, دنیا بھر میں پل پل کی خبریں جا رہی ہیں کہ اسرائیل وحشییانہ طاقت دکھا رہا ہے۔ کتنی شہادتیں ہو رہی ہیں کتنی ہو چکی ہیں, کتنے لوگ فاقوں میں مبتلا ہیں, خوراک کی قلت کتنی ہے, قحط کتنا پیدا کیا گیا ہے, مسلم ممالک کی طرف سے آنے والی امداد کے لیے جو رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں سب دیکھ رہے ہیں, سن رہے ہیں مگر بے اعتنائی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ مذمت میں دو بول نہیں بول رہے , امداد تو دور کی بات, جنگ بندی تو دور کی بات۔

او آئی سی جو 57 ممالک پر مشتمل ہے جسے عالمی تنظیم کا نام دیا گیا ہے اب اس کا نام ڈمی تنظیم رکھ دینا چاہیے جو صرف فوٹو سیشن اور ذاتی مفاد تک محدود ہو چکی ہے اسے اسلام کے دشمنوں سے لڑنانہیں ہے اب وہ ان سے تعلقات بڑھانے پر غور کر رہی ہے, اسکے لیے تجارتی مفاد زیادہ اہم ہیں اس نے یہ تسلم کرلیا ہےکہ فلسیطنی اور کشمیری گاجر مولی کی طرح کٹتے رہیں گے۔ آخر کار ہم غزوہ ہند کا انتظار کر کے چپ سادھ لیتے ہیں کیا ہم میں اتنی غیرت نہیں کہ انکے زخموں پر مرہم ہی رکھ سکیں۔

مجھے کبھی کبھی لگتا ہے وہ عمر فاروق کے دور میں یہ فرمان امریکہ اور اسرائیل جیسی قوم کے لیے جاری ہوا تھا, کہ دریائے فرات کے کنارے اگر بکری کا بچہ بھی پیاسا مر جائے گا تو پوچھ تم سے ہوگی۔ قطر والے گولڈ سے بنے ڈیزائن کا جہاذ تحفے میں دے سکتے ہیں۔ سعودی عرب اربوں ڈالروں کی تجارت کر سکتا ہےتوکیا ان بلکتے, سسکتے بچوں کے لیے خوراک نہیں بھیج سکتے۔

الجزیرہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں پانچ لاکھ اور ایک رپورٹ کے مطابق پندرہ لاکھ فلسطینی بھوک کا شکار ہیں، جبکہ باقی تمام افراد شدید غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ اسرائیل نے اس محصور علاقے میں خوراک، پانی اور دوا کی فراہمی مکمل طور پر بند کر رکھی ہے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے جنگ وہ جگہ ہے جہاں کے نوجوان جو ایک دوسرے کو جانتے نہیں نہ ہی ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں ایک دوسرے کو مارتے ہیں ان لوگوں کے فیصلوں سے جو ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں مگر ایک دوسرے کو مارتے نہیں۔

سچ ثابت ہو چکا ہے کہ سویلین سویلین سے نفرت نہیں کرتے۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اب غزہ کے بچوں پر خود اسرائیلی عوام کو بھی ترس آنے لگا ہے۔ رات تل ابیب میں اسرائیلی عوام نے غزہ کے بچوں کی تصاویر اٹھا کر نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کیا۔

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

اور دوسری طرف امت مسلمہ کے غافل حکمران۔
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

پاکستان کے فلاحی اداروں سے جو ہو سکا جتنا ہو سکا انہوں نے امداد بھیجی اور مزید بھیج رہے ہیں جسمیں الخدمت کا نام پیش پیش ہے.ترکیہ کے سفیر عرفان نذیر اوغلو نے الخدمت ہیڈ آفس کا دورہ کیا اور الخدمت کے رضاکاروں میں اپنا نام رجسٹر کروایا۔

ترکیہ کے شیف اور سوشل ورکر براک کزن نے بھی بے تحاشا امداد کی یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے پکا کر بچوں کو کھلایا۔ ان کو کھلونے دیے مگر اب ان کا کمزور بدن کھلونوں کے کھیلنے کے قابل نہیں رہا۔ سوشل میڈیا پر ایک فلسطینی بچے نے رنگ برنگی کاغذوں کو کاٹ کر سلاد, گوشت, سبزی اور کولڈ ڈرنک بنا کر سجائی اور کہاں ہمیں کھلونے نہیں کھانا چاہیے۔آخر میں میں اپنی بات ایرانی سپریم لیڈر کے اس قول پر ختم کرتی ہوں کہ اسرائیلی حکومت کینسر کی طرح ہے اور اسکو ہر صورت ختم کرنا ہوگا۔

اور امام حسینؑ نے فرمایا کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اُٹھو گے، اتنی ہی زیادہ قربانی دینی پڑے گی۔ اس فرمان میں تمام عالم اسلام کےلیے اشارہ ہے اور صرف یہی نہیں سینگ والی بکری بغیر سینگ والی بکری کو مارے گی تو اس سے بھی باز پُرس ہوگی اے میرے اسلامی بھائیو! سوچیں ہم کہاں کھڑے ہیں۔
تحریر: زرتاشیہ مہوش مغل

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں