اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ افراد شدید غربت کی زندگی گزار ہے ہیں۔ جنگ زدہ ممالک میں غربت کی شرح نسبتاً تین گنازیادہ ہے کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ تنازعات 2023ء میں دیکھنے میں آئے
۔یہ اندازہ لگا نا مشکل نہیں ہے کہ دنیا کے پسماندہ‘غیر ترقی یا فتہ اور جنگ زدہ ملکوں میں غربت اور اموات کی شرح خطرناک حد تک بلندہے جبکہ بچوں کی شرح پیدائش بھی بہت زیادہ ہے۔ کمسن بچوں کی شادیاں بچوں کے اغواء‘بچوں پر تشد د‘زیادتی اورانہیں قتل کرنے کی شرح بھی خوفناک حدتک بلند ہے۔
دنیا میں مفلسوں کی بڑی تعداد کا ہونا اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ عالمی سطح پر طاقتور اقوام کا رویہ ترقی دوست نہیں ہے اور نہ ہی عالمی مالیاتی اداروں کے کنٹرولرز اور ہینڈلرزغریب ملکوں میں قیام امن اور ترقی کے بارے میں کوئی سنجیدہ فکر رکھتے ہیں۔ تاہم متاثرہ ممالک میں رہنے والے غریب افراد کے لئے بنیادی ضروریات کے سلسلے میں کئیں زیادہ سخت اور مایوس کن جدوجہد دیکھنے میں آئی ہے۔
عالمی معاشی نظام اور اس نظام کے اسٹیک ہولڈرز عالمی سرمایہ دار لینڈ ہو لڈرز مذہبی جا ئیدادوں مثلا چرچز‘مندروں‘ گو ردواروں‘ درگاہوں اور مدارس ومسا جد کی جا ئیدادوں کے اسٹیک ہولدرز عالمی سطح پر سرکاری جائیدداوں اورمتروکہ املاک کے طاقتور الا ٹیز اسٹیک ہو لڈرز چیر یٹی اور عوامی فلا ح کے نا م پر قائم عالمی تنظیموں کے ٹر سٹیز اور انتظا میہ وغیرہ جو اصل میں انٹر نیشنل کیپٹل ازم کے اسٹیک ہو لڈرز ہیں۔ ان کے نظریے میں غیروں اور بے سہا را لو گو ں کے لئے کو ئی جگہ نہیں ہے۔
غریب ملکوں میں نفرتیں پیدا کرانا‘مذہبی فر قہ ورائیت کو قائم رکھنا نسلی منا فرت کو ہو ا دینا اور غریب ملکوں میں خانہ جنگی کی فضا کو برقرار رکھنا ان گروہو ں کا مفا دہے۔زیادہ تر خانہ جنگیاں غریب اور پسماندہ ملکوں میں نظرآئی ہیں۔مذہبی نسلی اور قبائلی نفرتیں اور تعصبات کی شرح بھی ان ہی ملکوں میں بلند ہے۔پورا براعظم افریقہ انہی نفرتوں کی آگ میں جل رہا ہے۔
صومالیہ‘ لیبیا‘ سوڈان‘ کیمیرون یوگنڈا اور ایتھو پیا جیسے ملکوں میں نفرت کے بیچ انہی تعصبات نے بوئے ہیں۔ خانہ جنگی انہی بیجوں سے پیدا ہوئی ہے۔ ایتھوپیا میں خانہ جنگی اور قحط سب نے دیکھا ہے۔ یہ دنیا کے زر خیز ترین خطوں میں سے ایک ہے لیکن اس ملک میں قحط اور خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں لوگ مارے گئے بالا آخر اس ملک کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونا پڑا۔ایریٹیریا میں مسلمان اکثریت میں تھے
جبکہ باقی ایتھوپیا میں مسیحیت کا راج تھا۔ یوں ایتھو پیا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔سو ڈان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہو ا۔آج سوڈان بھی دو حصوں میں تقسیم ہے ایک سوڈان کے نا م سے قائم ہے جبکہ دوسرا جنوبی سوڈان ہے جہا ں عیسائی بھاری اکثریت میں ہیں انڈو نیشیا بھی تقسیم ہو ا جنوبی بالی جو انڈو نیشیا کا حصہ ہو ا کرتا تھا وہ اب ایک آزاد اور خود مختا ر ملک بن گیا بنگلہ دیش کا قیا م بھی لسانی اور نسلی تعصبا ت کی آگ میں جلنے کی وجہ سے عمل میں آیا
حالا نکہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان دونوں میں مسلمان بھاری اکثریت میں رہتے ہیں لیکن جب کوئی بھی تعصب حد سے بڑھ جاتا ہے تو اس کا نتیجہ جنگ اور خون کی شکل میں نکلتا ہے اگر اشیا ء کا جائزہ لیا جائے تو یہا ں بھی غربت سر کھو کے نا چ رہی ہے۔ جنوبی ایشیا دنیا کے غریب ترین خطوں میں سے ایک ہے حا لا نکہ اس خطے میں بے پنا ہ وسا ئل موجودہ ہیں
بے مثال اور بھاری افرادی قوت بھی جنوبی ایشیا میں رہتی ہے۔ اعلیٰ پا ئے کے انجینئر ڈاکٹر ز فنا نشل ایکسپر ٹس اور سا ئنس دا ن اس خطے میں مو جود ہ ہیں بلکہ یہا ں
کے ذہین سائنس دان امریکہ برطانیہ آسٹریلیا وغیرہ میں آباد ہیں جنوبی ایشیاء کے پو رے خطے میں گیس اور کو ئلے کے وسیع ذخا ئر ہیں پو رے خطے کے چشمو ں ندیوں جھیلوں دریا ؤ ں کا شما ر کیا جا ئے تو شا ید دنیا بھر میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے
لیکن اس کے باوجود جنوبی ایشیا کے نو ے فی صد عوام غر بت کا شکا ر ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ اس سارے خطے کے طاقتور طبقے ہیں جن کے مفا دات عالمی کیپٹلزم کے ساتھ جڑے ہو ئے ہیں۔ انٹر نیشنل کیپٹلزم اپنے اندرونی تضا دات کا شکا ر ہو چکا ہے کیپٹلزم کے ما ہرین معا شیا ت ما ہرن سما جیا ت اور سیا سیا ت سر جوڑ کر بیٹھے ہیں
تا کہ انٹر نیشنل کیپٹلڑ م بجا ئے اور قائم رکھنے کی راہ نکا لی جا ئے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ما ہرین ما لیا تی سسٹم بہتر بنا نے کی طو ر پر بہت کو شش کر رہے ہیں لیکن معاملا ت حل نہیں ہو پا رہے۔ اگر دنیا کے غریب اور ترقی یافتہ ملکوں میں امن قا ئم کرادیا جا ئے غریب ملکوں میں رجعت پسند قوتوں کا ریا ستی کنٹرول ختم کر ایاجا ئے تو بھی انٹرنیشنل کیپٹلزم مسائل کا شکا ر ہو تا ہے
کیو نکہ اگر خانہ جنگیاں بند ہو جا ئیں تو تر قی یا فتہ ممالک میں قائم ہتھیا روں کی صنعت زوال پذیر ہو نے کے خطرات سے دوچا ر ہو سکتی ہے۔ اگر غریب ملکوں میں امن قائم ہو جا ئے اور وہا ں پرو گریسو نظریا ت فروغ پا جا ئیں تو ان ملکوں میں ترقی کا عمل حیرا ن کن حد تک تیز ہو جا ئے گا،
ا گر ایسا ہو تا ہے تو تر قی یا فتہ مما لک میں قائم صنعتوں اور کاروبا روں کا حجم لا زمی طو ر پر کم ہو جا ئے گا۔ جس سے وہا ں بے روزگا ری بڑھ سکتی ہے چین اور ہندوستان کی مثال لیجئے آج چین اور ہندوستان کی معیشتیں ترقی کر رہی ہیں امریکہ اور یورپ کی چین کے ساتھ محاز آرائی شروع ہو چکی ہے جبکہ ہندوستان جو تاحال امریکہ اور یورب کے کیمپ میں ہے
لیکن جیسے ہی ہندوستان کی معیشت نے جمپ لگایا اور حیران کن حد تک آگے بڑھی تو امریکہ اور کینیڈا وغیرہ کے ساتھ ہندوستان کے بھی تنازعات شروع ہو گئے ہیں۔ دیکھا جائے تو غریب اور کمزور ملکوں کی پسماندگی اور وہاں بڑھتی ہوئی نفرتوں اور عصبیتوں کا براہ راست تعلق انٹرنیشنل کیپٹلسٹ ممالک کے ساتھ جُڑا ہوا نظر آتا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اور اس جیسی دیگر عالمی تنظیمیں جدید ترین اور انتہائی مہنگا اسلحہ کہاں سے خرید تی ہیں؟
اور مزید یہ کہ ان دہشت گردگروہوں کے پاس اتنی زیادہ دولت کن ذرائع سے آتی ہے؟ ان دہشت گردگروہوں کی فنانشل ٹراننریکشنز کا حجم لازمی طور پر کئی ملکوں کی آمدنی سے زیادہ ہوگا کیا یہ سب کچھ چوری چھپے ہو رہا ہے؟ ایساہر گز نہیں ہے ٹیکنالوجی کی اس ترقی کے دور میں دنیا کے طاقتور ملکوں کی باوسائل اور تربیت یا فتہ بیوروکریسی اور سیکورٹی ایجنسیوں کی نگرانی سے بچنا انتہائی مشکل کام ہے لہذا ترقی یا فتہ اور طاقتور اقوام کو عالمی نظام کو بچانے کے لئے خود قربانی دینی ہو گی
اور اس کا دارو مداروسائل کی منصفانہ تقسیم پر ہے وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے غریبوں کی بھوک وافلاس کو مٹانا ایک حقیقی انسان دوست معاشی نظام کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ اس وقت دنیا پر مسلط موجودہ استحصال معاشی نظام وسائل کے منصفانہ تقسیم اور غربت مٹانے کے بجائے وسائل کے بہتر ین استعمال کر مرکزی حیثیت دے کر ایک مخصوص طبقے اور محدود انسانوں کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے جس کا واضح ثبوت ریکارڈ معاشی ترقی کے محدود ثمرات ہیں
پچھلے چار دہائیوں میں سالانہ عالمی پیدا وار یعنی گلوبل جی ٹی رود دس کھرب ڈالر سے بڑھ کر ایک سو پانچ کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔دوسری طرف عالمی معیشت کے اس بڑھتے حجم کے ثمرات سرمایہ داروں تک محدود ہیں ایک رپورٹ کے مطابق ایک سوچھتیس ممالک میں سے بیالس ممالک میں بھوک وافلاس کی بدترین حالت ہے عالمی سطح پر تہتر کروڑ پچاس لاکھ کو مناسب خوراک تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ بھوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ تقریباً تین ارب لوگوں کو
صحت بخش خوراک میسر نہیں ہے جنوبی ایشیا اور افریقہ میں بھوک وافلاس سب سے زیادہ ہے۔