ظلم کے بعد بھی آزادی: کب بدلے گا ہمارا قانون؟

تحریر: حماد چوہدری

آج دل بہت بے چین ہے۔ اس معاشرے کی بے حسی اور ہمارے نظامِ انصاف کی کمزوریاں میرے ذہن پر بھاری بوجھ بن کر بیٹھی ہوئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں جو واقعات سامنے آئے، خصوصاً وہ کیس جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا، اُس نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ایک عام گھر کی لڑکی آخر کہاں جائے؟
کچھ خواتین کے غلط استعمال کیے گئے “عورت کارڈ” نے معاشرے میں موجود ان بے شمار لڑکیوں کے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں جو حقیقت میں ظلم کا شکار ہوتی ہیں اور جن کے پاس آواز اٹھانے کا نہ پلیٹ فارم ہوتا ہے، نہ وسائل۔

سوال یہ ہے کہ ایک عام، غریب یا متوسط گھرانے کی لڑکی کی فریاد کون سنتا ہے؟ اکثر دیکھا ہے کہ پولیس ایک سادہ سی FIR لکھوانے کے لیے بھی پیسوں کی طلبگار ہوتی ہے، اور پھر جب کیس آگے بڑھتا ہے، تو ملزمان کو صرف اس بنیاد پر ضمانت مل جاتی ہے کہ ان کا کوئی پچھلا کریمنل ریکارڈ نہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟

جس 16 سالہ بچی کا واقعہ سامنے آیا، اُس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ بال کاٹ کر اُس کی تذلیل کی گئی، ویڈیو بنائی گئی، اور پھر ایک ڈیڑھ ماہ بعد وہ ویڈیو وائرل ہوئی۔ اس کے باوجود وہ لڑکی خاموش رہی، نہ پولیس گئی، نہ کوئی عورت کارڈ کھیلا—صرف اپنے رب کے حضور روئی۔
لیکن جب ویڈیو وائرل ہوئی تب ہی ادارے حرکت میں آئے۔ اسلام آباد پولیس نے اسے اس کے گھر سے لے جا کر بیان لیا، پھر کیس پنجاب پو لیس منتقل ہوا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ نے نوٹس بھی لیا، مگر اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر پولیس کا رویہ متاثرہ بچی کے ساتھ ہمدردانہ ہونے کے بجائے الزام تراشی اور دباؤ پر مبنی تھا۔

پوری رات اسے تھانے میں سردی میں بٹھائے رکھا گیا۔ صبح جب جج کے سامنے پیشی سے پہلے کچھ پولیس اہلکاروں نے بجائے انصاف فراہم کرنے کے، اُس پر الٹے الزامات لگانے شروع کر دیے۔
یہ سب سن کر وہ ڈر گئی۔ اُس نے صرف اتنی سی بات کہی کہ “جیسے انہوں نے میرے بال کاٹے، ویسے ہی ان کے بال کاٹ کر ویڈیو بنائی جائے۔ بس یہی میری خواہش ہے۔”

لیکن افسوس، کیس کی کارروائی کے باوجود ملزمان آسانی سے ضمانت پر رہا ہوگئے۔ کیا یہ یقین دہانی ہے کہ وہ دوبارہ کسی لڑکی کی تذلیل نہیں کریں گے؟ اگر دوبارہ ایسا کچھ ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا؟ ہمارے ادارے؟ یا کوئی حکومتی نمائندہ؟

یہ سوال آج میرے دل میں بھی ہے اور شاید ہزاروں لوگوں کے ذہنوں میں بھی۔ اگر ظلم کے بعد مجرم اتنی آسانی سے آزاد ہو جائیں، تو پھر انصاف کی امید کیسے رکھی جائے؟ اور کمزور طبقہ اپنا تحفظ کس سے مانگے؟

آج دل بھرا ہوا ہے، مگر یہی لکھ کر خود کو تھوڑا ہلکا کر رہا ہوں۔ اس کے بعد بھی بہت کچھ کہنا ہے—مگر پہلے چاہتا ہوں کہ اس درد کی گونج کو کوئی سن لے