ظلم، ریاست اور بلوچ

ظلم کا مطلب ہے کسی بھی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا کر رکھنا جبکہ ظلم کا اصطلاحی معنی یہ ہے کہ کسی بات یا معاملات میں کمی بیشی کی جائے جو حق و انصاف کے خلاف ہو

آج پھر عبداللہ صاحب بہت کرب کی حالت میں تھے۔ سانحہ بلوچستان سے بہت زیادہ پریشان نظر آرہے تھے۔ یہ حادثہ مورخہ 15 مارچ 2025 جعفر ایکسپریس نامی ٹرین کے ساتھ پیش آیا جو کوئٹہ سے پشاور کی طرف رواں دواں تھی۔

یکدم اسے کچھ خوارجین نے یرغمال بنا لیا تھا جس میں تقریبا 380 سے زیادہ مسافر موجود تھے البتہ بعد میں اس ٹرین کو خوارج اور یرغمالیوں کو جہنم واصل کرنے کے بعد آزاد کرا لیا گیا مگر ریاست کے ماتھے پہ کلنک کا ٹیکہ تو لگ چکا ہے۔
جمیل صاحب اپ کو پتہ ہے جعفر خان جمالی کا شمار بلوچستان سے تھا

اور ان کا شمار بانی پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ جب ان کے قریبی عزیز میر ظفر اللہ خان جمالی پاکستان کے وزیراعظم بنے تو ان کے دور میں پہلے سے چلنے والی ایک ٹرین کو میر جعفر خان کے نام سے منسوب کر کے اس کا نام جعفر ایکسپرس رکھ دیا گیا۔

جمیل صاحب اپ کو 26 نومبر 2024 میں ڈی چوک پہ ہونے والا انسیڈنٹ یاد ہے، جس میں تقریباً 278 لاشوں کا الزام لگایا گیا، پھر بعد میں وہ بیان 10 لاشوں تک محدود ہو گیا، یہ ظلم چاہے ایک کے ساتھ ہو یا 278 کے ساتھ، ظلم بالآخر ظلم ہے۔ جناب شہید کوئی بھی ہو اس کے خاندان پر بہت بڑا ظلم ہوا ہے

غالب نے اپنے بیٹے کے مرنے پر یہ شعر کہا تھا۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور۔

سیاسی کارکنان شہید ہوئے ہیں یا تو رینجرز اہلکار، دونوں ہی صورت میں ظلم تو ہوا ہے۔۔ عبداللہ صاحب اس ظلم کا ذمہ دار کون ہے؟

ریاست!جمیل صاحب صرف اور صرف ریاست!۔ ریاست ایک ماں کی طرح ہوتی ہے اور ماں اپنے سپوتوں کو نہیں مرنے دیتی۔ یہ کیسی ریاست تھی جس نے پہلے رینجرز کو مظاہرین کے ہاتھوں مرنے دیا اور پھر سیکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں مظاہرین کو مرنے دیا۔

میں کس کے ہاتھوں اپنا لہو تلاش کروں
سارے ہی شہر نے پہنے ہوئے ہیں داستانیں

جمیل صاحب! ظلم سب سے بڑا خطرناک ہتھیار ہے، کسی سے بدلہ لینا ہو تو اسے ظلم کی ترغیب دینا شروع کر دیں، آپ کچھ عرصے بعد اسے برباد ہوتا دیکھیں گے۔

جمیل صاحب یہ نمرود‘ فرعون‘ ہامان شداد یہ سب لوگ ظالم ہی تو تھے۔۔ ان کو ظلم کرتے دیکھ کر ان کی رعایا واہ واہ کی تسبیح پڑھا کرتی تھی۔ ان کا حال تمہارے سامنے ہے۔

جمیل صاحب ظلم ساری نیکیاں بھی کھا جاتا ہے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے آنگن میں پالنے والے سے موسیٰ کے چاہنے والے آج بھی نفرت کرتے ہیں۔ اور بالآخر وہ سمندر برد ہوا۔ مغرور نمرود ایک مچھر کے ذریعے ختم ہوا، ان سب کو چھوڑو جمیل صاحب ایک تہجد گزار ظالم کے بارے میں بتاتا ہوں۔۔

حجاج بن یوسف روز رات کو عبادت میں کھڑے ہو کر 10 سپارے پڑھا کرتا تھا۔ اللہ تعالٰی نے اس کو اس کے مظالم کی وجہ سے ایسی بیماری دی کہ وہ آگ کے پاس بیٹھ کر بھی سردی سے کانپتا تھا۔ آگ کے وہ اس قدر قریب بیٹھتا تھا کہ جلد جلنے لگے، مگر اس کی کپکپاہٹ نہیں جاتی تھی۔

بہت بڑے بڑے طبیب بلائے گئے۔۔ایک طبیب نے تو ایک تجربہ کیا، اس طبیب نے گوشت کی ایک بوٹی کو دھاگے میں باندھ کر حجاج کو کھلایا جب حجاج اس بوٹی کو معدے تک نگل گیا تو پھر اس طبیب نے دھاگے کو باہر کھینچا۔ جمیل صاحب اس چھوٹی سی بوٹی میں بے شمار کیڑے چپکے ہوئے تھے

وہ طبیب توبہ توبہ کر کیوہاں سے اٹھا۔ دنیا اسے ایک ظالم حکمران کے نام سے جانتی ہے۔ جمیل صاحب ریاست گولی چلانے والوں کو ہتھیار پھینکنے پر مجبور کر سکتی ہے یہاں تک کہ وہ خودکش بمبار نہ ہو جائیں۔

عبداللہ صاحب! مظاہرین میں سے کسی کی لاش یا لواحقین نظر نہیں آئے۔ سوشل میڈیا میں جب کہ سوشل میڈیا میں صرف اور صرف پروپیگینڈا نظر آ رہا ہے۔ جمیل صاحب دعا کریں کہ یہ پروپیگنڈا ہی ہو، اگر تو لواحقین اپنے مقتولین کے ساتھ تصدیق شدہ کاغذات لے کر آگے تو حجاج ہو یا حاجی سب ان ظالموں میں ہوں گے جو تاریخ میں فرعون نمرود وغیرہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

عبداللہ صاحب قیاس آرائی ہی محسوس ہوتی یے، اس فاسٹ سوشل میڈیا میں کسی کو کھانسی بھی آتی ہے تو سوشل میڈیا میں ٹرینڈ بنتے دیر نہیں لگتی، یہ تو پھر لاشیں تھیں۔ یہ کہاں غائب ہو سکتی ہیں۔

جمیل صاحب پارہ چنار کرم ایجنسی اور بلوچستان کی لاشیں کہاں ہیں سوشل میڈیا میں۔ جمیل صاحب! بلوچ قوم کے بارے میں بتاتا ہوں، بلوچ ایک خوددار قوم کا نام ہے۔

لیفٹیننٹ کرنل (ر) سکندر خان بلوچ نے اپنی کتاب “تاریخ کے زخم” میں لکھا ہے کہ ہندوستان کے حوالے سے انگریزوں کا نفسیاتی مطالعہ بڑا دلچسپ ہے جس کے مطابق کچھ لوگوں کو صرف ڈنڈے کے زور پر مطیع کیا جا سکتا ہے۔ کچھ کو مال و دولت کے لالچ میں اور کچھ کو عہدوں اور ملازمتوں کے وعدوں پر اور کچھ کو سرداری کے خطاب سے ہم نوا بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن بلوچ صرف عزت و احترام سے ہی خریدا جا سکتا ہے۔

اور ہمایو نامہ میں شیر خان مزاری نے اپنی کتاب(A journey to Disillusionment “) میں لکھا ہے کہ جب ہمایوں 1543 میں شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران کی طرف آ نکلا اور جب وہ بلوچستان سے گزرا تو یہاں ایک مگسی سردار کی حکومت تھی۔

جسے ہمایوں کے بھائی کامران مرزا “والء قندھار” نے ہدایت دے رکھی تھی کہ اگر ہمایوں ایران جاتے ہوئے اس کے علاقے سے گزرے تو اسے گرفتار کر کے اس کے پاس قندھار لایا جائے۔

جس کے لانے میں بہت سے زیادہ انعام و کرام سے نوازا جائے گا۔ مگر بلوچ سردار نے ان سب انعام و کرام کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتے ہوئے ہمایوں کے آنے اور اس کے علاقے میں کیمپ لگانے پر خود ہمایوں کے پاس گیا اور اسے اسکے بھائی کا حکم نامہ دکھانے کے بعد کہا چونکہ آپکا کیمپ میرے گاؤں میں لگا ہوا ہے۔

اس لیے بلوچ روایات کے تحت اب آپ ہماری پناہ میں ہیں اور بلکہ یقین دلایا کہ اب کوئی اپکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، میں اور میرا قبیلہ ہر قیمت پر آپکی حفاظت کریں گے۔

عبداللہ صاحب یہ ان ناراض بلوچوں کو کب تک منانے کی کوششیں کی جاتی رہے ریاست بھی تنگ آ چکی ہے۔ جب یہ خوارج بلوچ معصوم اور نہتے لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیں بلکہ شناختی کارڈ کو دیکھ کر ان کی نسل قومیت اور مذہب کی تعصبیت میں قتل کئے جانے لگیں تو ایسے بلوچوں سے کیا افہام و تفہیم سے کام لیا جائے۔

اب آپ ہی بتائیں ان کے ساتھ کیا کیا جائے۔جمیل صاحب! اگر تو یہ خوارج ہیں اور واقعی معصوموں کو قتل کر رہے ہیں تو ریاست کا فرض ہے کہ ان کو پکڑے، اور پکڑ کر ان پر الزام ثابت کرے اور پھر بے شک قتل کر دے۔ لیکن ایکسٹرا جیوڈیشنری کلنگ (ماورائے عدالت قتل) کسی بھی صورت نہیں ہونی چاہیے۔

قرآن مجید میں تو یہاں تک ہے کہ خوارجین کو پکڑ کر ان کے بازو اور ٹانگ مخالف سمتوں سے کاٹ کر پھینک دیا جائے لیکن یہ ثابت کرنے کے بعد کہ یہ خوارج ہی ہیں!!!۔

اپنا تبصرہ بھیجیں