طلباء کو جلسوں میں شرکت سے روکنا غیر جمہوری عمل ہے

ضیاء الرحمن ضیاء/آج ملک میں ایک عجیب کشمکش جاری ہے، ہر طرف سے سیاسی وار چل رہے ہیں جس کی زد میں عوام ہی نے آنا ہے اور وہ آرہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ناجائز و نااہل قرار دے کر تمام اپوزیشن جماعتیں اس کے خلاف متحد ہو چکی ہیں اور اسے ختم کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں اور جگہ جگہ احتجاج جاری ہیں جن میں تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں، بہر حال تحریک انصاف کو اب وہ سب کچھ ناجائز محسوس ہو رہا ہے جو گزشتہ ادوار میں ان کے لیے جائز تھا جب وہ خود اپوزیشن میں تھے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے انہوں نے اس وقت کی حکومتوں کو خوب ستایا، خوب جلسے جلوس کیے، تاریخ کے طویل ترین دھرنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے اور پارلیمنٹ کی بے حرمتی اور پی ٹی وی پر حملے کا کارنامہ بھی انہوں نے ہی سرانجام دیا۔ اب وہ خود جب حکومت میں ہیں تو دوسروں کے احتجاج وغیرہ برداشت نہیں کر پارہے اسی سلسلے کی ایک کڑی مدارس کے طلباء کو پی ڈی ایم کے جلسوں سے روکنے کی کوشش بھی ہے۔ حکومت نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے احتجاج میں مدارس کے طلباء کی شمولیت روکنے کا پلان بنایا ہے۔ وزیراعظم نے اس کار خیر کے لیے وزیرداخلہ شیخ رشید کو ٹاسک بھی سونپ دیا ہے۔ مدارس کے طلباء کی سیاسی جلسوں میں شرکت کو ”مذہب کی آڑ میں سیاست“ کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب پی ڈی ایم نے وزیراعظم عمران خان سے 31جنوری تک استعفیٰ طلب کر رکھا ہے اور نہ دینے کی صورت میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا عندیہ دے رکھا ہے حکومت لانگ مارچ کو کمزور کرنے کے لیے اس کے شرکاء کو کم سے کم کرنا چاہتی ہے جس کے لیے ایک حربہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ مدارس کے طلباء کو معصوم قرار دے کر یا ”مذہب کے نام پر سیاست“ کا نعرہ لگا کر مدارس کے طلباء کو روکا جائے تا کہ کسی حد تک تو مارچ کے شرکاء کی تعداد کم کی جا سکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج تک جتنی بھی سیاسی تحاریک چلیں انہیں کامیاب بنانے کے لیے طلباء نے اہم کردار ادا کیا۔ ہر تحریک میں طلباء سیاسی جماعتوں کو کامیاب بنانے کے لیے پیش پیش رہے اور اپنے قائدین کے دست و بازو بنے۔ تحریک پاکستان سے لے تحریک انصاف تک ہر تحریک میں طلباء بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور اپنے قائدین کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتے رہے۔ قائد اعظم کی طلباء کے ساتھ محبت کی تو مثال نہیں ملتی طلباء کے ساتھ وہ براہ راست رابطہ رکھتے تھے، ان کے جلسوں اور اجلاسوں میں اپنی تمام تر مصروفیات کو ترک کر کے شرکت کرتے تھے، طلباء بھی تحریک پاکستان میں خوب داد شجاعت دیتے تھے۔ ایک مرتبہ قائداعظم محمد علی جناح طلباء کی دعوت پر علی گڑھ یونیورسٹی گئے۔ طلباء یونین کے ایک لیڈر واحد بخش قادری نے تعارفی کلمات پیش کرنے تھے۔ اس وقت علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ضیاء الدین تھے، انہوں نے کہا کہ قائداعظم چونکہ بہت مصروف شخصیت ہیں ا س لیے وقت کا خاص خیال رکھا جائے لہٰذا تقریر مختصر اور جامع ہونے چاہیے۔ آپ کے پاس تقریر کے لیے صرف دو منٹ ہیں اس کے بعد میں گھنٹی بجاؤں گا تو آپ نے تقریر ختم کردینی ہے۔ قائد اعظم کی آمد کے بعد واحد بخش نے کھڑے ہو کر تقریر شروع کی۔ ان کی تقریر نہایت سحر انگیز تھی، دو منٹ پورے ہونے پر وائس چانسلر نے گھنٹی جائی تو واحد بخش نے فوراً تقریر روک دی تو قائد اعظم بے اختیار بول اٹھے، قادری جاری رکھو، جاری رکھو۔ یوں قادری نے اپنی تقریر مکمل کی۔ ایسے ہی تمام سیاسی جلسوں اور احتجاجوں میں طلباء پورے جوش و خروش کے ساتھ شرکت کرتے تھے۔ اس وقت تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ طلباء کو سیاست سے دور رکھو بلکہ سبھی جانتے تھے کہ نوجوان اور خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوان ہی کسی قوم کو سنبھالا دے سکتے ہیں اور یہی نوجوان مستقبل کے قائدین بنیں گے لہٰذا ان کی سیاسی تربیت ضروری ہے۔ یہ تو آج کے فلسفی ہیں جو مخصوص تعلیمی اداروں کے نوجوانوں کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں باقی سب کے لیے سیاست جائز ہے کیونکہ انہوں نے ایک باطل خیال پال رکھا ہے۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے اپنے جلسوں میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کتنے طلباء شرکت کرتے رہے اس وقت انہیں نوجوانوں پر ترس نہیں آتا تھا۔ اب بھی صرف مدارس کے طلباء کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے باقی تعلیمی اداروں کے طلباء چاہے شرکت کریں۔ یہ عجیب منطق ہے، جس طرح باقی تعلیمی اداروں کے طلباء کی سیاسی تربیت ضروری ہے بعینہٖ دینی مدارس کے طلباء کی سیاسی تربیت بھی انتہائی ضروری ہے، ہاں اس میں دو طرح کی باتوں کا خیال رکھا جائے، پہلی یہ کہ زیادہ چھوٹے بچے سیاسی جلسوں میں شرکت نہ کریں اور دوسری یہ کہ طلباء کی پڑھائی ضائع نہ ہو، اگر ان دوباتوں کا خیال رکھا جائے تو مدارس کے طلباء کی جلسوں میں شرکت میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور یہ باتیں صرف مدارس کے طلباء کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ تمام تعلیمی اداروں میں ان باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ لہٰذا مدارس کے طلباء کو ٹارگٹ کر کے سیاست سے روکنا اور اپنے اس مطالبے کو جواز فراہم کرنے کے لیے ”مدارس کے طلباء“ کی بجائے بار بار ”مدارس کے بچے“ کے الفاظ استعمال کرنے سراسر زیادتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں