طالبان امریکہ امن معاہدہ اور خدشات

محمدشہزاد نقشبندی /افغانستان کے عوام انتہائی جنگجو ،جفاکش اور انتہائی مضبوط اعصاب کے مالک ہیں جلد ہی ہار تسلیم نہیں کرتے اسی لیے انیس سو نواسی سے لے کر آج تک تقریبا 40 سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے مسلسل مصروف جنگ ہیں اور نہ ہی اس جنگ سے تھکے ہیں اور نہ ہی اکتائے اور نہ ہی ہار تسلیم کی ہے اسی جذبہ و جنوں کی وجہ سے انہوں نے1988 ءمیں پاکستان اور امریکہ کی مدد سے اس وقت کی سپر پاور سوویت یونین روس کو شکست فاش سے دوچار کیا اور اسے اپنے پاو¿ں سر پر رکھ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا پھر کچھ وقت ذاتی جھگڑوں کی نظر ہو گیا اور پھر نائن الیون واقعہ کے بعد دنیا کی سپر پاور امریکہ نے القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جو اس وقت طالبان کی پناہ میں تھے انہوں نے روایتی مہمان نوازی کو مدنظر رکھتے ہوئے انکارکردیا جواباً امریکہ نے اتحادیوں کی مدد سے افغانستان پر دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے حملہ کردیا اس جنگ سے ایک لاکھ سے زائد افغان شہری اور چوبیس سو اتحادی فوجی مارے گئے اس طویل اور تھکا دینے والی گوریلا جنگ نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو تھکا دیا اس لیے کافی عرصہ سے اس جنگ سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے اسی لیے تقریبا ڈیڑھ سال سے قطر میں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف عمل تھے آخر کار ان کی یہ کوششیں رنگ لائیں اور ایک امن معاہدہ طے پاگیا جس پر طالبان راہنمااور امریکی نمائندے نے دستخط کردیے جس کے مطابق طالبان افغانستان کی سرزمین مین کسی بھی ایسی تنظیم گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا معاہدے کی اس شرط میں امریکہ نے طالبان کو پورے افغانستان میں بالا دست طاقت تسلیم کر لیا ہے اور تمام افغانستان میں امن قائم کرنے کی زمہ داری ان کو سونپ دی اگر ان کو افغانستان میں بالا دستی حاصل نہ ہوتی تو یہ ذمہ داری ان کو کبھی نہ ملتی اور امریکہ ہار نہ مانتا اب اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات افغانستان میں محفوظ رہتے ہیں تو معاہدے کے دوسرے حصے پر عملدرآمد ہوگا امریکی اور اتحادی فوجیں جو اس وقت 14 ہزار امریکی اور 17 ہزار اتحادی دیگر 39 ممالک کے فوجی موجود ہیں سب کو بتدریج افغانستان سے نکال لیا جائے گا ان کے ساتھ ساتھ نیم فوجی، ٹھیکیدار اور عام شہری اور نجی سکیورٹی اہلکار بھی افغانستان کو چھوڑ دیں گے اور پانچ ملٹری بیس بھی مکمل طور پر خالی کردیئے جائیں گے خدشہ تو اس چیز کا ہے کہ امریکہ کے مکمل انخلا کے بعد کیا افغانستان میں امن و امان قائم ہو جائے گا کیونکہ اس سے پہلے بھی انیس سو اٹھاسی میں روس کے مکمل انخلا کے بعد ہر گروہ اپنی حکومت بنانے کے چکر میں تھا اسی کشمکش میں تمام گروپ آپس میں دست و گریباں ہو گئے اور افغان قوم کو مزید تقسیم کر دیا اس جنگ کا خاتمہ1996 میں طالبان حکومت کے قیام کی صورت میں ہوا اس امن معاہدے میں دوسری اہم بات جو ذکر کی گئی تھی کہ 10 مارچ سے انٹرا افغان مذاکرات شروع ہوں گے جو تا حال شروع نہیں ہو سکے کیونکہ ابھی تک مذاکراتی کمیٹی کی ھی تشکیل نہیں ہو سکی دوسری شق کے مطابق پہلے روز ہی پانچ ہزار طالبان قیدی جو افغانستان کی مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ان کو آزاد کردیا جائے گا اور بدلے میں ایک ہزار افغان سکیورٹی اہلکار جو طالبان کی قید میں ہیں ان کو آزاد کر دیا جائے گا یہ معاہدہ طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پایا ان مذاکرات اور معاہدے میں کوئی بھی نمائندہ افغان حکومت کا شامل نہیں رہا اسی لیے افغان صدر اشرف غنی نے اسی دن ردعمل دیتے ہوئے قیدی رہا کرنے سے صاف انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ ہم اس معاہدے کے پابند نہیں ہیں اور نہ ہی امریکہ ہمیں مجبور کر سکتا ہے اسی لئے طالبان نے بھی معاہدے کو معطل کر دیا تھا لیکن اب امریکہ اور افغان حکومت کا مشترکہ موقف آ یا ہے کہ طریقہ کار طے کردیا گیا ہے رہا کریں گے لیکن تھوڑے تھوڑے( تا کہ دباو¿ بھی بر قرار رہے ) طالبان کا اصرار ہے کہ تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ ڈیڈ لاک برقرار ہے ساتھ ساتھ دھماکے بھی ہو رہے ہیں لیکن کسی نے بھی کسی کو زمہ دار نہیں ٹھہرایا خوش عین بات ہے انٹرا افغان مذاکرات میں ایک اور مشکل بھی درپیش ہے اور وہ مشکل حکومتی مذاکراتی ٹیم کی تشکیل ہے کیونکہ امریکہ نے افغان حکومتی ٹیم کا اعلان نہیں کیا اب تو مشکل میں اور اضافہ بھی ہو گیا ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے افغان صدر کا حلف اٹھا لیا ہے اب کس کی حکومت ہو گی ویسے امریکہ کی حمایت تو غنی کو حاصل ہے پھر بھی حکومتی اتحاد میں تو دراڑیں پڑ گئی ہیں اب حکومتی مذاکراتی کمیٹی بنانا اور بھی مشکل ہے دیگر دھڑے بھی موجود ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر مذاکرات کس چیز پر ہوتے ہیں کیونکہ طالبان تو پہلے ہی اس آئین کو صحیح طریقے سے تسلیم ہی نہیں کرتے اور ان کی خواہش ہے کہ اس آئین کو شریعت مطہرہ کے مطابق ڈھال دیا جائے اور حکومتی ٹیم اس کی مخالف ہے وہ سیکولر ازم کی حامی ہے اور عورت کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے دیگر بھی کئی پیچیدہ مسائل انتخابی طریقہ کار حکومتی تشکیل وغیرہ ہیں لیکن سب سے اہم بات انڈیا کا کردار ہے افغان حکومتی ٹیم ساری کی ساری انڈیا نواز ہے جبکہ طالبان پاکستان کے حمایتی ہیں اسی لئے جس دن اس معائدے پر دستخط ہو رہے تھے ادھر انڈین نمائندہ افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کر رہا تھا کیونکہ انڈیا کے بہت سے مفادات افغانستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ایک تو اس نے تین ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کی ہوئی ہے اگر طالبان حکومت میں آ جاتے ہیں تو اس کی یہ انویسٹمنٹ خطرے میں پڑ جائے گی اور دوسرا پاکستان کی مغربی سرحد مکمل طور پر محفوظ ہو جائے گی انڈیا اس صورت حال کو کبھی قبول نہیں کرے گا اور اس نے اب اپنی کوششوں کو مزید تیز کر دیا ہے اس لئے خدشات ہیں کہ یہ مذاکرات امریکہ سے تو کامیاب ہوگئے ہیں لیکن انٹرا افغان مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچنا مشکل ترین کام ہوگا ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں اللہ افغانستان میں امن قائم فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں