طاقت ہاری، مگر بیانیہ جیت گیا

پاکستان کی سیاست میں ایسے رہنما بہت کم پیدا ہوتے ہیں جو وقت سے پہلے حقیقت کو پہچان لیں، قوم کو سچ دکھا سکیں، اور اپنی بات پر استقامت کے ساتھ قائم رہیں۔ عمران خان انہی رہنماؤں میں سے ہیں۔ اُن کا بیانیہ ابتدا میں مخالفت، تمسخر اور پروپیگنڈا کا نشانہ بنا، مگر وقت نے ایک ایک لفظ کو سچ ثابت کر دیا۔ “تحریک انصاف ہی کیوں؟” اس سوال کا جواب اُس فکر میں چھپا ہے جو عمران خان نے قوم کے سامنے پیش کی — کرپشن کے خلاف جہاد، غلامانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد، اور ایک خوددار، آزاد پاکستان کا خواب۔

تحریک انصاف نے وہ سیاسی کلچر توڑا جس میں طاقت چند خاندانوں کے گرد گھومتی تھی۔ عمران خان نے عام آدمی کو سیاسی شعور دیا، اُسے بتایا کہ تبدیلی ممکن ہے اگر وہ خود کو کمزور نہ سمجھے۔ یہی وجہ تھی کہ 2018 میں نوجوان، متوسط طبقہ اور تعلیم یافتہ طبقہ عمران خان کے پیچھے کھڑا ہوا۔ ان کا نعرہ ’’نیا پاکستان‘‘ محض ایک سیاسی وعدہ نہیں تھا، بلکہ ایک نظریہ تھا — انصاف، خودداری، اور ادارہ جاتی شفافیت کا نظریہ۔ عمران خان نے کہا تھا: “قومیں تب بنتی ہیں جب ان میں اصول، کردار اور خودی زندہ رہتی ہے۔” آج یہی نظریہ لاکھ رکاوٹوں کے باوجود زندہ ہے۔

وقت کے ساتھ وہ تمام باتیں جو عمران خان نے برسوں پہلے کیں، آج کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ چاہے وہ ملکی معیشت کی تباہی کے اصل ذمہ دار ہوں، بیرونی مداخلت کا کردار ہو، یا اشرافیہ کی کرپٹ سیاست — ہر پیشگوئی حقیقت بن چکی ہے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ یہ لڑائی دو سیاستدانوں کی نہیں، بلکہ دو نظریات کی جنگ ہے: ایک طرف غلامی، دوسری طرف خودداری۔ آج پاکستان کا ہر باشعور شہری اس فرق کو محسوس کر رہا ہے۔

مزاحمت کی اس داستان کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ جب عمران خان جیل میں ہیں، تب بھی تحریک انصاف کا نظریہ زندہ ہے۔ پارٹی پر ظلم و جبر کی انتہا کر دی گئی ہے، کارکنوں کو قید کیا جا رہا ہے، رہنماؤں کو دباؤ میں لایا جا رہا ہے، اور میڈیا میں ان کی آواز بند کی جا رہی ہے۔ مگر ان تمام مشکلات کے باوجود عوام کے دلوں سے عمران خان کی محبت ختم نہیں ہو سکی۔ اس سیاسی دباؤ کے ماحول میں سہیل آفریدی کا ایک عام کارکن سے وزیرِاعلیٰ بننا ایک تاریخی مثال ہے — ایسی مثال جو پاکستان کی کسی اور جماعت میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہ وہ لمحہ ہے جب تحریک انصاف نے ثابت کر دیا کہ قیادت وراثت نہیں، خدمت سے بنتی ہے۔ سہیل آفریدی کی کامیابی عمران خان کے اس وژن کی عکاسی کرتی ہے کہ سیاست جاگیرداروں کی جاگیر نہیں بلکہ عوام کا حق ہے۔

نتیجہ:
تحریک انصاف آج بھی محض ایک سیاسی جماعت نہیں، بلکہ ایک فکری تحریک ہے — سچ، خودداری اور عوامی اقتدار کی علامت۔ عمران خان قید میں ضرور ہیں، مگر ان کا نظریہ جیل کی دیواروں سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ ان کی پیشگوئیاں، ان کی باتیں اور ان کا عزم وقت کے ساتھ درست ثابت ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کی سیاست نے ایک عام پاکستانی کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ خواب دیکھے، بولے، اور حق کے لیے کھڑا ہو۔ اور شاید یہی عمران خان کا اصل بیانیہ ہے — “خوف کے بت توڑ دو، کیونکہ غلام قومیں کبھی آزاد نہیں ہوتیں۔”