طارق مرزا سفرنامے کی دنیا کے بادشاہ

خالد محمود مرزا کے بھائی طارق مرزا کی محبتوں کا بہت بہت شکریہ۔ آپ پانچ کتب کے مصنف ہیں اور سفر نامے کی دنیا کے بادشاہ ہیں۔ آسٹریلیا کے دارلخلافہ سڈنی میں مقیم یہ با کردار شخص جب بھی پاکستان آتا ہے تو بے بہا محبتیں نچھاور کر کے پھول نما درختوں کے گھنے اور خوشبو والے جھونکے چاروں طرف بکھیر کر نہ مٹنے والی یادیں چھوڑ کر بظاہر یہ سر زمیں پاکستان چھوڑ کر چلا تو جاتا ہے مگر نہ ختم ہونے والی خوشگوار یادیں ہماری جھولیوں میں ڈال جاتا ہے۔ اپنا دامن بھی تر کر کے بھیگی پلکوں سے اور پر نم آنکھوں سے بظاہر ہنستا ہوا مگر پاکستان اور رشتوں کی جدائی میں چور چور واپسی کے سفر پر رواں دواں ہو جاتا ہے۔ طارق بھائی کی یہ دو کتب مجھے گھر بیٹھے بٹھائے آسمان کی بلندیوں پر لے جا رہی ہیں اور میرے علم میں بے بہا اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ اس دن خالد بھائی اور طارق بھائی نے کچھ دوستوں کے اعزاز میں لاثانیہ ہوٹل میں لنچ کا اہتمام کیا اور دوستوں سے مل کر دل باغ باغ ہو گیا۔ طارق مرزا ایک باکردار انسان اور بہترین سفر نامہ نگار ہیں جنکی تحریریں پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ انسان علم کے سمندر میں موتیوں کو چن رہا ہو۔ انکا سفر نامہ پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے طارق بھائی ہمارے ساتھ کھڑے ہوں اور اپنی زبان سے اور ہاتھوں کے اشاروں سے ہمیں کوئی درس دے رہے ہوں اور یہ کسی تحریر کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔ طارق مرزا کی تحریریں ہر طرف ہر جگہ اپنے زندہ ہونے کی گواہی دے رہی ہوتی ہیں۔ یا درہے کہ جو الفاظ کاغذ پر منتقل ہو جائیں انہیں سات سمندروں کا پانی بھی مٹا نہیں سکتا اور یہ تحریریں قیامت تک زندہ رہتی ہیں۔ بس یہ خیال رکھنا ہوگا کہ ہمارے قلم سے لکھے گئے الفاظ سے پڑھنے والے راہ راست پر آتے ہیں یا راہ فرار کے مسافر بن جاتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ لکھی گئی اچھی اور بری تحریریں سب قیامت تک زندہ رہیں گی۔ اب یہ لکھاری پر منحصر ہے کہ وہ روشنی کی طرف جاتا ہے یا جہالت اسکا مقدر بنتی ہے۔طارق مرزا کی تحریروں میں کامیاب انسان نظر آتا ہے۔ ان کے الفاظ میں روشنی کے مینار نظر آتے ہیں۔ یہ تحریریں اندھیروں کو جگمگاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے ایک ایک لفظ میں سیکھنے کا عمل پوشیدہ ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ”گود سے گور تک علم حاصل کرو“۔ ان کی تحریروں میں مجھے آج بھی علم کے خزانے نظر آئے۔ وہ باتیں جو آج تک نہیں پڑھیں اور سنی وہ بھی سمیٹ لیں۔ دوستوں سے گزارش ہے کہ طارق مرزا کے سفرنامے پڑھیں اور علم کے دریا کو سمندر میں تبدیل کرتے جائیں اور زندہ انسان جب تک کوئی بھلائی والا کام نہیں کرے گا اس کی زندگی ایسے ہے جیسے کوئی حلال کھا کر اسے حرام میں تبدیل کر رہا ہو۔ زندہ تو خونخوار جانور بھی ہوتے ہیں مگر وہ اشرف المخلوقات ہر گز نہیں کہلوا سکتے۔ بالکل اسی طرح دو ٹانگوں والے جانور بھی اس دنیا موجود ہیں جو بظاہر تو انسان نظر آتے ہیں مگر وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ وہ اچھائی کی بجائے برائی کا سبب بن کر اپنے لیے جہنم کا ایندھن اکٹھا کر رہے ہیں۔ طارق مرزا کے گراں قدر الفاظ اور موتیوں کی لڑی میں پروئی ہوئی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس مرد قلندر نے اپنے اردگرد بسنے والوں کو منفی سوچ سے مثبت سوچ کا مسافر بنا دیا اور یہی کام اور کردار اس شخص کو اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی کامیاب ترین کر دے گا۔ جانے سے پہلے بس اتنا کہوں گا کہ جو شخص اپنے روزگار سے فارغ ہونے کے بعد بھی بھلائی کے کاموں میں مصروف ہو جائے وہ یقیناً اپنے والدین اور بزرگوں کی دعاؤں کے حصار میں ایک خوشبودار پھول ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں