ضمیر حسین بھٹی مرحوم ایک روشن ستارہ

محمد مسعود بھٹی

اپنی بیٹی کی شادی کے لیے ملبوسات،جیولری خریدی اور جہیز خرید کر بغیر نمائش کیے بیٹی کے سسرال پہنچا دیا۔ مینیو سلیکٹ کر کے ہال کے مالک کو ادائیگی بھی کر دی۔ رخصتی سے تین دن قبل شام3بجے نکاح کی تقریب تھی۔ نکاح فارم خود پُر کیے، نکاح ہوا۔ غنودگی نے آغوش میں لیا اور پھر کچھ ہوش نہ رہا۔ ہسپتال منتقل ہوئے، CTسکین رپورٹس کے مطابق ڈاکٹرز نے (Brain Hemorrhage) کا بتایا۔ دس فیصد زندہ بچنے کی امید اور دعاؤں کی تلقین کی۔ بہادر بیوی نے شادی ہال سے دل پر پتھررکھ کر جب بیٹی کو تنہا رخصت کیا تو یہ ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔
ضمیر حسین بھٹی14مئی 1970؁ء کو پیدا ہوئے۔ نو بہن بھائیوں میں سے آٹھویں نمبر پر تھے۔ میٹرک فیصل آباد سے کیا جہاں آپکے والدین اپنی آبائی زمینوں کی دیکھ بھال کے سلسلہ میں مقیم تھے۔ انٹر اور گریجوایشن گورنمنٹ گورڈن کالج راولپنڈی سے کی۔
تعلیم سے فارغ ہو کر سعودی عرب گئے، عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ نوکری راس نہ آئی اور چھ ماہ بعد واپس آ گئے۔ چند سال نیشنل ماڈل سکول کلرسیداں میں مدرس کے فرائض سرانجام دیے۔ چوہدری ظہور احمد (مرحوم) اور چوہدری محمد اسلم(مرحوم) کی ترغیب پر سید مودوری ؒ کا لٹریچر پڑھا۔ بہت متاثر ہو کر جماعتِ اسلامی کے اجتماعات میں شرکت کرنے لگے۔ راسخ العقیدہ مسلمان، صوم و صلوۃ کے پابند تھے۔ ہر طبقہ فکر کے افراد سے تعلق رکھتے تھے۔ فرقہ بندی اور مسلک پرستی سے سخت نفرت کرتے تھے۔ دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں (کشمیر و فلسطین) وغیرہ کی آواز بلند کرنا، آفاتِ سماوی زلزلہ اور سیلاب زدگان کی امداد ہو یا اپنے علاقے کے غریب اور مستحق افراد کی امداد صفحہ اول میں شامل ہوتے۔ زمانہ طالبِ علمی سے ہی ہاکی، کرکٹ اور بیڈمنٹن کے اچھے کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مقرر تھے اور شعر و شاعری کا بھی شغف رکھتے تھے۔ بلکہ کچھ اشعار اور غزلیں بھی لکھیں اور اپنا تخلص”آزاد “رکھا۔1995ء میں بطور ایلیمنٹری سکول ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول دریالہ سیگن سے تدریس کا آغاز کیا۔ دو سال بعد گورنمنٹ ہائی سکول چوآ خالصہ میں تبادلہ ہوا۔جب سکول کو ہائیر سیکنڈری کا درجہ ملا تو انٹر کلاسز کو پڑھانے کے لیے سٹاف نہ تھا تو ضمیر حسین بھٹی اور دیگر اساتذہ نے انٹر کی کلاسز لینے کی ذمہ داری خود لی اور بخوبی سرانجام دی۔ ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ مدرس اسحاق حیدری کی سرپرستی میں سکول کی فٹ بال ٹیم چیف منسٹر کپ کے لیے لاہور گئی تو ضمیر حسین بھٹی بھی ان کے ہم رکاب تھے
جولائی2007ء میں اپنا تبادلہ گورنمنٹ ہائی سکول کلرسیداں میں کرایا۔ اپنی خوش مزاجی، خوش گفتاری، ہمدردانہ اور مشفقانہ رویہ سے طلباء اور اساتذہ میں بہت جلد اپنا مقام بنا لیا۔ عوامی خدمت کا جذبہ بدرجہ اتم ہونے کی بدولت جان دیدہ استاد چوہدری تصور حسین سے انھیں پنجاب ٹیچرز یونین ضلع راولپنڈی کی نائب صدارت کے لیے تجویز کیا تو تحصیل بھر کے مرد و خواتین اساتذہ نے انھیں بھاری اکثریت سے حامد علی شاہ پینل میں الیکشن کے زریعے کامیاب کرایا۔ پھر ہر ٹیچر کا دفتری کام اور ہر ٹیچر کا مسئلہ ان کا مسئلہ ٹھہرا اسی بنیاد پر وہ دوبارہ سینئر نائب صد ر پنجاب ٹیچرز یونین ضلع راولپنڈی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اساتذہ کے انفرادی اور اجتماعی کام کے لیے اپنی شوگر اور یرقان جیسی بیماری کی
بھی پروا نہ کی۔ پنجاب ٹیچرز یونین کے قائدین کی ہر کال پر لبیک کہا۔ خواتین ٹیچرز میں خاصہ مقبولیت کے حامل تھے کہ جب آخری ایام میں
ہسپتال داخل تھے دماغ کے آپریشن کے لیے وائٹ سیلز کی مطلوبہ مقدار کا انتظار تھا تو بہت سے خواتین اساتذہ ان کی تیمارداری کے لیے ہسپتال پہنچی۔ ایک انتہائی معزز ٹیچر نے کہا “سر اگر آپکو خون کی ضرورت ہو تو میں آپکو اپنا خون دوں گ ی” یہ الفاظ محض رسمی نہ تھے بلکہ ان کی لازوال خدمات کا والہانہ اعتراف تھا۔
گاؤں موہڑہ دھیال داخلی کنوہا تحصیل کلرسیداں کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ جامع مدنی مسجد کی جدید تعمیر کا آغاز واجد بھائی نے کیا تو بہت سے دیگر افراد کے ساتھ ضمیر حسین بھٹی بھی ان کے دستِ بازو تھے۔ مسجد کی تعمیر دو سال میں مکمل ہوئی۔ شدید بارش کی وجہ سے اسی مسجد میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔
گاؤں میں 1993ء میں صرف ایک 50KVکا ٹرانسفارمر تھا جس سے پانچ آبادیوں کو بجلی سپلائی ہوتی تھی۔ جو اوورلوڈ ہونے کی وجہ سے اکثر خراب رہتاتھا۔ ان ہی کی کاوشوں سے100kvکا نیا ٹرانسفارمر نصب ہوا۔
گاؤں میں 25کنال رقبہ شاملات تالاب، کھیل کے میدان اور جنازہ گاہ کے لیے مختص ہے۔ جس کے شمالی حصہ میں صوبیدار حکمداد(مرحوم) ڈسپنسری اور جنوبی حصہ میں تالاب ہے۔ جبکہ شرقی حصہ میں گہری کھائیاں پڑی ہوئی تھیں جس سے گراؤنڈ کوبھی نقصان پہنچ رہا تھا اور بچے بھی حادثات کا شکار ہوتے تھے۔ ضمیر حسین بھٹی کی قیادت میں دیگر افراد نے اسے ٹھیک کا کرانے کا بیڑا اٹھایا۔ ضمیر حسین بھٹی نے عبدالغفور بھٹی(مرحوم) آڈٹ آفیسرNLCکے زریعے ڈوزر منظور کرایا۔55گھنٹے کام ہوا۔ دیگر افراد کے علاوہ وحید ریاست کیپٹن کرکٹ ٹیم کے بھرپور تعاون سے پروجیکٹ پایا تکمیل تک پہنچا۔
گورنمنٹ گرلز ایلیمنٹری سکول کنوہا نمبر1کو ہائی کا درجہ ملا تو کمروں اور چاردیواری کی شدید کمی تھی۔ کل9کنال رقبہ میں سے صرف 2کنال رقبہ پر چند کمرے موجود تھے جبکہ سات کنال رقبے کے بیشطر حصہ پرقرب و جوار کے زمینوں کے مالکان قابض تھے۔ ضمیر حسین بھٹی سے ٹیچرز یونین کے نمائندہ اور با اثر سماجی شخصیت ارشد محمود بھٹی (پنڈبینسو) کے خصوصی تعاون سے چاردیواری، تین عدد کلاس رومز اور ایس این ای محکمہ تعلیم سے منظور کرائی گئی۔ محکمانہ نشاندہی تحصیلدار کلرسیداں سے کرا کر کمرے تعمیر ہوئے مگر ٹھیکدار ارد گرد کے زمین مالکان کے خوف سے چاردیواری پر کام شروع نہیں کر رہا تھا۔ گرانٹ لیپس ہونے کا خدشہ تھا ٹھیکدار بزد تھا کہ مجھے ایرے کھدوا دیں تو میں کام کروں گا۔ شدید مقامی افراد کے خطرہ کے باوجود ضمیر حسین بھٹی آگے بڑھے، شاول کی مدد سے ایک ہی دن میں ایرے کھدوا دیے جس پر ان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک مخصوص لابی نے قبرستان والے راستے کی بندش کو بنیاد بنا کر بہت سے رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی لیکن حق اور سچ کی فتح ہوئی اور سکول کی چاردیواری مکمل ہو گئی۔ مخالفین کا اصرار تھا کہ سکول کے اندر سے راستہ دیا جائے جس کے لیے باقاعدہ ڈی سی، اے سی، ای ڈی او ایجوکیشن کے آفس میں درخواستیں دی گئیں بلکہ ضمیر حسین بھٹی کی اہلیہ جو کہ مذکورہ سکول میں ٹیچر کے فرائض سرانجام دے رہی تھیں ان کو بھی عدالت میں گھسیٹنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ الحمداللہ آج چاردیوری کی بدولت سکول کی طالبات، اساتذہ اور زمین بھی محفوظ ہے اور قبرستان جانے والا کشادہ و پختہ راستہ بھی موجود ہے۔

گاؤں موہڑہ دھیال کنوہا کے قبرستان کے گرد کوئی حفاظتی باڑ یا دیوار نہ تھی۔ مال مویشی قبروں کی بے حرمتی کرتے تھے۔1995میں قبرستان کے گرد باڑ لگانے کا کام بھی ضمیر حسین بھٹی کے حصہ میں آیا۔ اپنی مدد آپ کے تحت کنکریٹ کے75پلر بنائے گئے اور قبرستان کے گرد حار دار اور محصوص جگہوں پر گیٹ لگا کر قبروں کو محفوظ کیا گیا۔2018میں جب یہ باڑ بھی خراب ہونے لگی تو واجد بھائی(یوکے) نے حفاظتی جنگلے کے زریعے قبرستان کو محفوظ بنانے کا پراجیکٹ بنایا تو اس میں بھی ضمیر حسین بھٹی پیش پیش تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ قبرستان علاقہ کے بہترین قبرستانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
26سال ملازمت کرنے کے بعد19مارچ2021کو بطورِ ایس ایس ٹی پروموشن گورنمنٹ بوائز ہائی سکول بھلاکھر میں ہوئی لیکن دو دن بعد23مارچ کو ضمیر حسین بھٹی ہزاروں چاہنے والوں کو چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آہوں اور سسکیوں میں آبائی گاؤں کے قبرستان میں سپردِ کر دیے گئے
اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔ ان کی دو ننھی پریاں پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لی تھیں جنہو ں نے یقینا اپنے بابا کا جنت میں استقبال کیا ہو گا۔
آسمان تیری لحد پر شبنم آفشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

اپنا تبصرہ بھیجیں