ضعف لاعتقادی و توہم پرستی ایک اہم سماجی برائی

اکثر سماجی مسائل جنہیں ہم غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، در حقیقت یہی مسائل و معاملات ہمارے سماجی بگاڑ اور پسماندگی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ضعف لاعتقادی اور توہم پرستی بھی ایسے ہی

 

بے شک خدا اترانے والے اور بڑائی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ النسا ء ۳۶)
جو کوئی عزت چاہتا ہو اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ عزت تو ساری کی ساری اللہ کے لیئے ہے ۔ (سورۃ فاطر ۱۰)

اکثر سماجی مسائل جنہیں ہم غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، در حقیقت یہی مسائل و معاملات ہمارے سماجی بگاڑ اور پسماندگی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ضعف لاعتقادی اور توہم پرستی بھی ایسے ہی معاملیو مسئلے ہیں جنہیں عوام تو کیا ہمارے اہل علم و دانش نے بھی کبھی لائقِ توجہ نہیں سمجھا۔ میرے ایک جاننے والے پبلک ٹرانسپورٹر تھے، ایک دن ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ انھوں نے تمام گاڑیاں فروخت کر دی ہیں اور اب ٹرانسپورٹ کا کاروبار نہیں کریں گے کیونکہ پیر بابا نے انھیں بتایا ہے کہ لوہا انھیں راس نہیں آئے گا اور ان کا کاروبار تباہ ہو جائیگا۔میرے ایک ساتھی سفید کپڑے اس لیے نہیں پہنتے ہیں کہ انکا خیال ہے کہ سفید کپڑے پہن کر انھیں نظر لگ جاتی ہے اور وہ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ میرے ایک دوست ہمیشہ ایک مخصوص موتی جڑی ہوئی انگوٹھی اس لیئے پہنتے ہیں کہ اس سے خیرو برکت ہوتی ہے۔ہمارے ایک پڑوسی کے بچے کو ٹائیفائیڈ ہوا اور اس کی ذہنی صلاحیت متاثرہو گئی مگر لاکھ سمجھانے کے باوجود انھوں نے اسکا طبی معائنہ نہیں کرایا کیونکہ انکو ایک نام نہاد روحانی بزرگ نے انھیں کہہ دیا ہے کہ اس پر کسی بھوت کا سایہ ہے۔ ہمارے پڑوس میں ایک نوجوان لڑکی کو ہسٹریا کے دورے پڑنے لگے تو اس کے والدین نے اسے کالج جانے سے بھی روک دیا اور تعویذ گنڈے سے اسکا علاج شروع کر دیا کہ اسے تو چڑیل چمٹی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل سورج گرہن لگا تو پاکستان میں متعلقہ سائنسدانوں نے پیشگی اطلاع کر دی اوراسکا وقت اور دورانیہ بھی بتا دیا اور یہ بھی واضع کیا کہ اس سے کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔مگر پھر بھی پورے ملک میں سراسیمگی پھیل گئی کیونکہ لوگوں کا خیال اور وہم تھا کہ اس گرہن سے نہ صرف حاملہ خواتین کے ہاں معزور بچے پیدا ہونگے بلکہ یہ کئی آفات کا سبب بھی بنے گا۔ یہ تو خیر عوامی رویے ہیں ایک مصدقہ اطلاع کے مطابق ہمارے ملک کی ایک سابقہ اہم ترین سیاسی شخصیت جب سرکاری دورے پر بنگلہ دیش گئ  تو انھوں نے خصوصی اہتمام کے ساتھ ایک ایسے بزرگ کے پاس حاضری دی اور اسے انعام و اکرام سے نوازا جس نے انھیں کچھ عرصہ قبل بتایا تھا کہ “آم پھٹیں گے تو وہ بادشاہ بنیں گی”وہی اہم شخصیت الیکشن کے موقع پر ایک بار کسی روحانی بزرگ کے پاس گئیں تو اس بزرگ نے چھڑیاں مارنے کے بعد یہ مژدہ سنایا کہ جاؤ اب تم بادشاہ ہو۔ اس بزرگ کی یہ کرامت سن کر اس سیاسی شخصیت کی مدِ مقابل سیاسی شخصیت نے بھی بھاگم بھاگ اس بزرگ کے پاس حاضری دی مگر مبینہ طور پر اس بزرگ نے انھیں جواب دیا کہ جاؤ تم نے بہت دیر کر دی لہذا میں اگلی مرتبہ تمھیں بادشاہ بناؤں گا اور پھر دوسری مرتبہ وہ بادشاہ بن گئے اور اس بزرگ کی روحانی قوت کی شہرت آسمان سے باتیں کرنے لگی۔مذکورہ بالا نوعیت کے بے شمار واقعات اور رویوں کا مشاہدہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں کر سکتے ہیں مگر ان کے خلاف بات کرنامشکل ہے کیونکہ انھیں کسی نہ کسی طور مذہب اور خاندانی و سماجی روایات کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے ہر شخص اس معاملے میں آزاد ہے کہ وہ جو بھی مذہب و مسلک اختیار کرے اور اس کے اصولوں اور طریقہ ہائے کار پر کاربند ہو مگر آج شائد وہ دور نہیں راہا کہ ہم مذہب کو اندھے عقیدے کے طور پر اپنائیں کیونکہ آج کے دور میں مذہبی علوم و دیگر سائنسی علوم اس قدر عام ہو گئے ہیں کہ ہر بات کو دلیل کی بنیاد پر پرکھنامشکل نہیں رہا۔ آج اگر کسی سے کہا جائے کہ اپنے عقیدے سے وابستگی ثابت کرنے کے لیئے کسی کنویں میں یا آگ میں چھلانگ لگا دے اور وہ زندہ بچ جائیگا تو اسے اس عمل کی ضرورت اور افادیت کے لیئے استفسارضرور کرنا چاہیے۔ اسی طرح معاشرتی روایات کو عقل اور دلیل و افادیت کے معیار پر پرکھ کر ان کو قائم رکھنے یا ترک کرنے کے بارے میں فیصلے کرانے چاہیے۔ اسلام سمیت تمام مذاہب ، رواداری،اخوت،مساوات،انصاف اور نیکی کا درس دیتے ہیں مگر ہم ان تعلیمات کو عام کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی بجائے مذہب کو محض ایک Dogmaبنا دیا ہے حالانکہ مذہب سے ہم سماجی بہتری کے لیئے بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ حقیقت کی تلاش اور جستجو ہی ہمیں یہ فہم و ادراک عطا کرتی ہے کہ فطرت کے اپنے متعین اصول ہیں اور فطرت کا کوئی کرشمہ کبھی غیر فطری انداز میں ظہور پذیر نہیں ہوتا۔ تاریخ میں کوئی بھی ایسا مصدقہ واقع نہیں ملتا کہ کبھی کسی نر نے اولاد کو جنم دیا ہو، کبھی کسی مرغی نے منہ کے راستے انڈا دیا ہو یا متعین و معلوم طریقہ کار کے علاوہ کسی جاندار کی افزائشِ نسل ہوئی ہو۔ اگر ہم فطرت کی عادات،ارتقائی کیفیت اور ردِ عمل کے متعین اصولوں کی حقانیت کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں تو پھر ضعف لاعتقادی، توہم پرستی اور دقیانوسی خود بخود دم توڑ جائیں گی۔
ضعف لاعتقادی اور توہم پرستی کی کھلے عام مذمت، مزاحمت اور نفی سے شدید ردِ عمل کا خطرہ ہے جس سے اصلاح کی بجائے مزید بگاڑ پیدا ہو گا کیونکہ تصوراتی آسانیوں کی دنیا میں بسنے والوں کو حقیقت کی دنیا میں لانا ایک مشکل معامل ہے مگر اہم سماجی ، برائیوں اور منفی رویوں کو جوں کو توں چھوڑ دینا اس سے بھی خطرناک معاملہ ہے کہ برق رفتاری سے ترقی کرتی ہوئی آج کی دنیا میں ہم فرسودگی کے متحمل نہیں ہو سکے ہیں۔ضعف لاعتقادی و توہم پرستی کے بتدریج خاتمے کا واح حقیقت پسندانہ راستہ یہی ہے کہ جس طرح انکے معاشرتی اثرات کے باوجود محض مزاحمت کے خوف سے ضعف لاعتقادی و توہم پرستی کی روایات کو زندہ رکھنے کا پرچار کرنے والوں کو ہم کھلی آزادی دے رکھی ہے اسی طرح عصری صداقتوں کے پر چار کی بھی کھلی آزادی ہونی چاہیےبحوالہ کتاب “ہمارے سماجی رویے” بشکریہ ایم وائی خان

اپنا تبصرہ بھیجیں