ضرورت ایجاد کی ماں ہے

انسان قبل ازتاریخ اپنے گردوپیش کے حالات واقعات سے باخبر رہنے کا ہمیشہ سے خواہش مند رہا ہے آج پتھر کے دور کا انسان زیربحث ہے یہ جاننے کے لیے کہ کس طرح قدیم انسان نے مختلف ادوار میں معاشرتی اقدار کو اپناتے ہوئے ایک جدید انسانی معاشرے کی داغ بیل ڈالی پتھر کا زمانہ بنی نوع انسان کی تاریخ کا قدیم ترین دور کہلاتا ہے آثار قدیمہ کے ماہرین نے پتھر کے زمانے کو تین اہم مراحل میں تقسیم کیاہے:قدیم دور 30 لاکھ سال قبل مسیح 10 ہزارسال قبل مسیح،وسطی دور تا 7تا10 ہزار سال قبل مسیح جدید دور 6-3 ہزار سال قبل مسیح۔دنیا کی کہانی بہت پرانی ہے شروع میں انسان کو اپنے اردگرد کے ماحول کا بالکل علم نہیں تھا حتی کہ قدیم انسان کھیتی باڑی کے فن سے بھی ناآشنا تھانہ گھر بنا سکتا تھا نہ پڑھنا لکھنا آتا تھا انسانوں نے ہزاروں سال بعد زندگی گزارنے کے طور طریقے سیکھے سب سے پہلے دنیا میں کون شخص آیا کب آیا کہاں آیا وہ کہاں رہتا تھا یہ کسی کو کچھ معلوم نہیں تاریخ دانوں کو آج سے پچاس ہزار سال قبل کے انسان کے متعلق کچھ باتیں معلوم ہیں وہ کہتے ہیں قدیم لوگ بالکل جنگلی تھے رہائش کے لیے انکا کوئی اپنا گھربار نہیں تھا بارش ہوتی برف پڑتی یا خونخوارجنگلی جانور کھانے یا کاٹنے کو دوڑتے تو وہ درختوں پر چڑھ جاتے یاغاروں میں چھپ جاتے جانوروں کی خوراک انکی غذا تھی وہ لوگ کھیتی باڑی یا پودے اگانا نہیں جانتے تھے اس وقت دنیا میں ہرطرف جنگل بیابان تھے برسات کے موسم میں جھڑی لگتی یا جھاڑے کے موسم میں برف گرتی تو وہ غاروں میں چھپ کر بیٹھ جاتے اسی زمانے میں انہوں نے تصویریں بناناسیکھا وہ غاروں کی دیواروں پر شکار کے جانوروں کی تصویریں بناتے تھے ہزارہا برس پہلے کی تصویریں آج بھی ان غاروں میں دیکھی جاسکتی ہیں ایک دفعہ ایسا ہوا کہ کچھ لوگ کسی سرد مقام پر بس گئے کڑکڑاتی سردی میں درختوں پر چڑھ کر رہنا بہت مشکل تھا کیونکہ وہاں سرد اور یخ بختہ ہوائیں انکا پیھچا کرتیں برف باری کی وجہ سے غاروں کے منہ بھی بند ہوگئے تھے اس وقت بعض لوگوں کو خیال آیا کہ گھر بنانا چاہیے کچھ لوگوں نے گھاس وغیرہ کے تو کچھ نے مٹی کے گھروندے بنائے اسطرح آدمی نے گھر بنانا سیکھا پھر انہیں کئی دن تک شکار نہ ملا انہوں نے سوچا اسطرح تو ہم بھوکے مرجائیں گے آخر انہوں نے چند جانور پکڑے اور گھر میں رکھ لیے اور اسطرح جانور پالنے کی رسم چل نکلی سرد اور خشک موسم میں انہیں جنگلی پھل پھول کھانے کو نہیں ملتے تھے اسطرح انہوں نے پودے اگانے کا راز معلوم کرلیا اور اب وہ گھروں کے آس پاس پھولدار اور پھل دار درخت اگانے لگے اسطرح کھیتی باڑی اور باغبانی کی ابتدا ہوئی وہ لوگ آگ سے بہت پہلے ہی واقف ہوگئے تھے ایک دن بارش کے دنوں میں کسی درخت پر آسمانی بجلی گری تو اس درخت میں آگ لگ گئی ان لوگوں نے دیکھا کہ جنگلی جانور آگ کو دیکھ کر بھاگ رہے ہیں انہوں نے جلتی ہوئی لکڑیاں اپنے غاروں کے دھانوں کے آس پاس رکھ دیں جب وہ بجھنے لگیں تو وہ ان میں اور لکڑیاں ڈال دیتے آگ کو دیکھ کر جانور انکے غاروں کے پاس نہ پھٹکتے اور وہ رات کو آرام اور سکون کی نیند سوتے پھر ایک دن ایسا ہوا کہ کسی شخص کے ہاتھ میں چمقاق کے پتھر کے دو ٹکڑے ہاتھ لگ گئے اس نے انہیں آپس میں رگڑا تو چنگاریاں نکلیں اور یوں وہ چمقاق کا پتھر رگڑ کر آگ جلانے کا فن سیکھ گئے پھر ایک دن ایسا ہوا کہ جلتی ہوئی آگ میں گوشت کا ٹکڑا گرگیا ایک آدمی نے اسے آگ سے نکال کر کھایا تو وہ اسے بہت مزیدار لگا اس دن انہیں معلوم ہوا کہ بھنا ہوا گوشت کچے گوشت سے زیادہ لذیذ اور مزیدار ہوتا ہے اسطرح اس دن سے وہ لوگ کھانا پکانا سیکھنے لگے۔ اسکے بعد آہستہ آہستہ وہ مٹی کے برتن بنانے لگے پھر انہوں نے چراغ بھی بنا لیا اس میں وہ جانوروں کی چربی جلاتے تھے ابھی تک وہ اپنے اوزار پتھروں سے بناتے پھر ایک دن انہیں معلوم ہوا کہ کچھ پتھر آگ میں جل کر نرم ہوجاتے ہیں دراصل وہ دھات تھی جسے وہ اپنی ناسمجھی کی بنا پر اسے پتھر سمجھ رہے تھے اب وہ لوگ پتھروں کی بجائے دھات پگھلا کر اس سے تیر تلوار کلہاڑے اور برتن بنا لیتے وہ صرف اشاروں سے اپنا مطلب ایک دوسرے کو سمجھاتے تھے پھر انہوں نے ہر چیز کے نام رکھ لیے اسطرح دنیا میں مختلف زبانیں پھولنے لگیں وہ لوگ ایک ہی آبادی میں مل جل کر رہتے تھے لیکن انکا کوئی حاکم یا مجموعہ قانون قاعدہ نہ تھا آخر ایک دن آبادی کے لوگ ایک جگہ اگھٹے ہوئے انہوں نے ایک بوڑھے شخص کو اپنا سردار چن لیا وہ ساری بستی پر حکومت کرتا تھا اور اسکا فیصلہ ہر شخص مانتا تھا اسطرح ایک جگہ مل جل کر رہنے سے انسان کو بہت فائدہ ہوا کھانے پینے اور بات چیت کرنے کا سلیقہ آگیا اس دنیا کے انسا نے پہلے پہل ہڈیوں کو نوکیلا کرکے انکی سوئیاں اور قینچیاں بنائیں اسکے بعد وہ کپاس سے واقف ہوئے تو اسے کات کر سوت بنایا اور اس سے کپڑا بنتے تھے یہ تمام باتیں ہزاروں سال میں ہوئیں اسطرح انسان رفتہ رفتہ جانور سے انسان بنا ذات پات بھی اسی وقت شروع ہوئی جو لوگ کپڑا بنتے تھے وہ جولائے کہلائے جن لوگوں نے جوتے بنانے شروع کیے انہیں موچی کہا جانے لگاجو لوگ کھیتی باڑی کے اوزاراورجنگی ہتھیار بناتے انہیں لوہار کہنے لگے اسطرح سنار لوہار نائی اور دھوبی وغیرہ ذاتیں بنیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں