
خالد محمود مرزا
اللہ تعالیٰ کا کسی بھی انسان پر سب سے بڑا احسان ہے کہ اس کو خیر کا ذریعہ بنا دے ‘ وہ بزرگوں کے لئے خیر، وہ جوانوں کے لیے خیر، وہ خواتین کے لئے خیر، وہ بچوں کے لئے خیر سوچے، حتی کہ وہ ہر جاندار کے لئے خیر سوچے، جب اللہ اس کو انسانوں‘جانوروں‘ چرند‘ پرند کے لئے خیر کا ذریعہ بنا دیتا، گویا وہ کامیاب ہوگیا‘ اب وہ اللہ کی مخلوق کے لئے سراپا خیر ہے، اب اس سے شر کا کوئی اندیشہ نہیں، تو ایسا انسان دوسروں کے لئے سایہ دار درخت ہوتا ہے‘ جس کے نیچے، انسان، بڑے بوڑھے، بچے، خواتین، چرند پرند، گویا ہر جاندار اس سایہ کے نیچے آکر سکون اور راحت محسوس کرتا ہے، آج جس شخصیت کا تذکرہ کرنے چلا ہوں، وہ شخصیت سب کے لیے سراپا خیر تھی، گویا وہ سایہ دار درخت تھا جس کے سایہ میں اپنے اور پرائے ایک سکون محسوس کرتے تھے، وہ شخصیت صوفی محمد سالک رحمہ اللہ کی ہے، صوفی محمد سالک 15اکتوبر 1946 کو ڈھوک بدھال یوسی بندہ تحصیل راولپنڈی میں فضل کریم کے گھر پیدا ہوئے، ان کے والد صاحب ایک زمیندار تھے، صوفی محمد سالک رحمہ اللہ سے بڑے دو بھائی تھے، سید محمد اور دوسرے صوبیدار عبدالخالق صاحب جو یوسی بندہ کے چئیرمن بھی رہے، اس کے علاؤہ ان کی دو بہنیں تھیں،
وہ ابھی پرائمری میں تھے تو ان کے والد صاحب 1956 ءکو وفات پا گئے تھے، اس کی بعد ان کی پرورش بڑے بھائی صوبیدار عبدالخالق، اور سید محمد نے کی، ان کے سب سے بڑے بھائی سید محمد 1999 ءمیں فوت ہوگئے، انھوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مڈل سکول بندہ سے حاصل کی، اس کے بعد نویں کلاس میں گورنمنٹ ہائی سکول ادھوال میں داخلہ لیا، گورنمنٹ ہائی سکول ادھوال سے 1965 ءکو میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا، مارچ 1965 ءمیں میٹرک کا امتحان پاس کیا،اسی سال 1965 ءکو واپڈا میں بھرتی ہوگئے، اس کے بعد سروس کے دوران 1969 ءمیں حشمت علی اسلامیہ کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا، 1972 کو یونیورسٹی آف پنجاب سے BA کا امتحان پاس کیا، ان کی شادی 1975 کو ہوئی، 1986:میں ان کی والدہ صاحبہ کی وفات ہوگئی،
ان کی پوری سروس مریڑ حسن واپڈا کے دفتر۔میں بلنگ سیکشن میں گزری، وہاں بلنگ سپر وائزر کی سیٹ سے 1998 میں ریٹائر ہوئے‘ ان کی زندگی کی خاص بات یہ تھی کہ ان کو شروع سے لوگ صوفی کہتے تھے، کیوں ان کا لگاؤ دین کی طرف بچپن سے تھا، اس کے بعد سروس کے دوران ان کا تعارف سید مودودی رحمہ اللہ کے لٹریچر سے ہوا، انھوں نے سید مودودی رحمہ اللہ کو پڑھا، پھر اپنے آپ کو سید مودودی رحمہ اللہ کی فکر کے حوالے کردیا، 1975 میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے تھے، ایک سرکاری دفتر میں رہ کر کچھ لوگ دوسرے ذرائع استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو اطمینان قلب عطا فرمایا تھا،
وہ حلال رزق کے علاؤہ بالکل سوچتے بھی نہیں تھے، بلکہ یہ ہوتا تھا جو بھی اپنا یا پرایا کام لیکر جاتا اس کا کام بھی کرتے اور چائے بھی پلاتے تھے، کسی کو ان کے پاس جانے اور کام کروانے میں کوئی جھجھک نہیں تھی، اب ان کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور مخلوق کی خدمت تھا، وہ اس دور میں یونیورسٹی آف پنجاب سے گریجویٹ تھے، وہ اس بہتر کی طرف جاسکتے تھے لیکن ان کی زندگی کی خواہشات محدود تھیں، وہ دفتر سے آکر کتابوں والا تھیلا لیکر گاؤں گاؤں نکل جاتے تھے، وہ قرآن وحدیث کے اچھے مدرس تھے، اپنے گاؤں کی پانچ مساجد میں وہ بدل بدل کر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے، ڈھوک بدھال اڈے پر مسجد بنوائی، اس میں حفظ کا شعبہ
شروع کروایا، امام مقرر کروایا ابھی تک اس مسجد میں امام وہی ہیں، گاؤں میں ایک ایک فرد کی دلجوئی کرتے، بیواؤں اور یتیموں کی کفالت کرتے، ہر فرد ان کے پاس آکر سکون محسوس کرتا، وہ تھانہ روات جماعت اسلامی کے امیر رہے، وہ ایک متحرک شخصیت تھی، ایک ایک فرد تک پہنچ کر کتاب دیتے، ہر جگہ درس قرآن کے لئے پہنچ جاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو تین بیٹے، محمد زبیر، محمد خلیل اور عبد الجلیل عطا کئے اور ان کی تین بیٹیاں ہیں ان کے بیٹے عبد الجلیل اپنے باپ کے دوستوں سے بہت ہی محبت کرتے ہیں اور مجھے ان کی ساری اولاد سے بالخصوص اس صالح نوجوان سے جذباتی محبت ہے، ان کی زندگی کی خواہشات محدود تھیں، وہ جانتے تھے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے، اللہ کی بندگی اور مخلوق کی خدمت ضروری ہے،
ان کے قریبی دوست پیال سے بابو ظہیر، بسالی سے بابو عبد الرزاق، پیال سے قاضی سلیم اصغر ، بابو منیر پیال اور رب نواز میرا موڑہ سے ان کی زندگی کی گواہی دیتے ہیں ہم نے ان کی زندگی میں خیر کے علاؤہ کچھ نہیں دیکھا وہ سراپا خیر تھے، اس کے علاؤہ ان کا محمد عباس بٹ رحمہ اللہ، راجہ فضل الحق رحمہ اللہ، ملک محمد سپارس رحمہ اللہ، محبوب عالم رحمة اللہ، بابو غضنفر علی رحمتہ اللہ چوہدری امداد علی رحمتہ اللہ کے ساتھ گہرا تعلق تھا،آخر میں ان کی موت ایک حادثہ کے نتیجے میں ہوئی، ان کو سانپ نے کاٹا،
اس زہریلے سانپ کے کاٹنے سے 28 جون 2007 کو وہ اللہ کو پیارے ہو گئے، اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، وہ بہت ہی نرم خو، متحمل مزاج، صلح جو، رحم دل انسان تھے، اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے، وہ بہت ہی مہمان نواز اور مہربان انسان تھے، انھوں نے دنیا سے جاتے ہوئے یہ پیغام دیا اس دنیا کو اوڑھنا بچھونا نہ بنائیں، صلح رحمی کریں غریبوں کی دیکھ بھال کریں، لوگوں تک قرآن وحدیث کا پیغام پہنچائیں حرام سے بچیں، حلال اور طیب رزق کھائیں ہر طرح کی شرور اور فتنوں سے دور رہیں،اللہ تعالیٰ ہمیں اور ان کی اولاد کو ان کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین، ان کی اولاد کی زندگیوں میں رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرمائے آمین