ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو آج اور گزرے ہوئے کل میں بڑا واضح فرق ہے، صرف پچاس سالوں میں ہم نے ایک ہزار سال کا سفر طے کردیا ہے، آج سے پچاس سال پہلے والی زندگی مشکل تھی، کٹھن تھی، دشوار تھی، وسائل نہیں تھے، سہولتیں نہیں تھیں، پھر یہ ایک ہزار سال کا سفر 1980 سے تبدیل ہونا شروع ہوا، اور 2000 تک پہنچتے پہنچتے بہت بڑی تبدیلیاں آچکی تھیں، ہر جگہ سڑکیں پہنچ چکی ہیں، گاوں کے پچاس فیصد لوگوں کے پاس اپنی گاڑیاں آچکی ہیں،
لیکن میں جس دور کا ذکر کرنے چلا ہوں اس دور میں وسائل نہیں تھے، ہر طرف غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے، اس وقت کچھ ایسے لوگ تھے جن کو اپنی فکر سے زیادہ دوسروں کی فکر تھی، ان میں سے ایک صوبیدار ملک مولا بخش تھے، صوبیدار ملک مولا بخش 1920، ملک سید اللہ خان کے گھر ماڑی بنگیال یوسی بسالی تحصیل راولپنڈی میں پیدا ہوئے، اس دور میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی، 1941 پاکستان آرمی میں سپاہی بھرتی ہوئے، تعلیم ان کی چار جماعتیں تھیں لیکن وہ انگریزی اور اردو اچھی طرح بول سکتے تھے، لوگوں سے تعلقات بنانے کا ان کو ہنر آتا تھا، لوگوں کی خدمت کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، یہ ہی وجہ تھی اپنے گاوں اور علاقے کے بے شمار نوجوانوں کو فوج، پولیس، ریلوے میں بھرتی کروایا، وہ کسی نوجوان کو فارغ نہیں رہنے دیتے تھے جس کو دیکھا وہ فارغ ہے اس کو ساتھ لیکر جاتے اور پاکستان آرمی میں بھرتی کروا دیتے تھے،
ریٹائرمنٹ کے بعد بہترین سیاسی ورکر تھے، ہر الیکشن میں اپنے پولنگ سٹیشن کو ون کرنے کی کوشش کرتے تھے، 1977 کے الیکشن میں قومی اتحاد کا ساتھ دیا پھر PNA کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا، وہ گاوں میں کریانہ کی دوکان چلاتے تھے، دوکان کا سامان گوجر خان سے اونٹوں پر لاتے تھے، ایک دفعہ اونٹ روانہ کردیے اور خود انھوں نے سائیکل پر جانا تھا، اونٹ جا چکے تھے وہ روانہ ہونے لگے تو خاندان کی ایک رشتہ دارخاتون آگئی، دعا سلام کے بعد اس خاتون نے کہاکہ پھاپا مہاڑا مکان گر گیا ہے، بچے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں آپ کے پاس بڑی امید لیکر آئی ہوں، صوبیدار ملک مولا بخش نے سودا خریداری والی وہ رقم اس رشتہ دار خاتون کی گود میں ڈال دی
میری بہن مکان کا سامان خرید کر مکان بنائے، اللہ تمہارے اور تمہارے بچوں کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے،اونٹ روانہ ہوچکے تھے، جیب خالی ہو گی تھی، پھر اللہ سے دعا کی کہ اللہ کوئی سبب پیدا فرما، کیا دیکھتے ہیں، تین لوگ جو ادھار کا سودا لیتے تھے وہ باری باری آگے تینوں نے کچھ رقم واپس کردی، انھوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور سائیکل پر سودا خریداری کے لیے گوجر خان روانہ ہوگے، اس طرح ان کی زندگی کے بے شمار واقعات ہیں، ایک طرف وہ اپنے محدود وسائل سے لوگوں کی مدد کرتے تھے،
دوسری طرف وہ ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ کوئی نوجوان بے روزگار نہ رہے، غریب گھرانے کی بچیوں کی شادیوں کے موقع پر خاموشی سے مدد کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو دو بیٹوں سے نوازا بڑے بیٹے ملک ظہور سلطان سرکاری آفیسر تھے، ان کا 17 اگست 2018 میں انتقال ہوگیا تھا، چھوٹے بیٹے اور ہمارے بھائی ملک زبیر سلطان جماعت اسلامی کے رکن ہیں ان کا روات میں اپنا کاروبار ہے، وہ یوسی روات جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر ہیں اور ان کا اپنی یوسی بسالی میں ایک اہم سیاسی اور سماجی مقام ہے،
میرے تین الیکشن میں انھوں نے یوسی بسالی میں اپنی ٹیم بابو عبدالرزاق ، اختر محمود ملک، بابو غضفرعلی،ورنٹ آفیسر ماسٹر نثار احمد، محمد اعجاز،حاجی محمد شفیق، حاجی محمد نذیر ارشد قریشی، عبدالجلیل، ڈاکٹر فہیم طارق کے ساتھ مل کر بھرپور الیکشن مہم چلائی، الیکشن مہم میں وسائل بھی خرچ کئے،، دونوں بھائیوں کے بسالی میں الحمدللہ عالی شان مکان ہیں، خود صوبیدار ملک مولا بخش 13 جنوری 2011 میں بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اپنے رب کے پاس جاچکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی اگلی ساری منازل آسان فرمائے آمین
آج بھی ہمیں صوبیدار ملک مولا بخش کا کردار ہر بستی میں ادا کرنا ہو گا تاکہ کوئی بہن بیٹی اپنے مسائل کی وجہ سے پریشان ہو کر گر نہ جائے، آگے بڑھیں اپنے ارد گرد گرے پڑے ہوئے انسانوں کو اٹھائیں، ان کے سر پر ہاتھ رکھیں، ان کو سینہ سے لگائیں، کوئی بہن بیٹی اپنے مسائل کی وجہ سے تنہا اپنے گھر پر روتی نہ رہے، ہوٹلوں کے کھانے، بڑے بڑے نمائشی کام چھوڑ کر ارد گرد گرے پڑے ہوئے انسانوں کو اٹھائیں، یہ راستہ اللہ کی رضا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا ہے، اللہ تعالیٰ صوبیدار ملک مولا بخش رحمة اللہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین