صداقت عباسی اور سرورخان کی جنگ

آصف شاہ

پوٹھواری کی مثال ہے کہ ”پڑین سنڈے خرابی جھنڈاں نی“ اس کا عملی مظاہرہ اس وقت حلقہ این اے 57 کے ایم این اے صداقت عباسی اور ایم این اے 59 غلام سرور خان کے جاری ہے دونوں ایم این ایز کی حالیہ جاری سرد جنگ قانو گو ساگری میں زکوة کمیٹیوں کی تشکیل کے حوالہ سے ہے اس قانو گو میں اصل جنگ اس وقت شروع ہوئی جب صداقت عباسی نے مختلف کاموں کے حوالہ سے کمیٹیاں تشکیل دیں جس میں بلا تفریق نہ صرف تحریک انصاف کے کارکنان کو جگہ دی گئی بلکہ ن لیگ کے کارکنان کو جگہ دی گئی لیکن کمیٹیوں میں موجود غلام سرور خان گروپ نے نہ صرف ان کو مسترد کردیا بلکہ میڈیا میں بھی اس کو آڑھے ہاتھوں لیا گیا اور انہوں نے دئیے گئے عہدوں کو بھی قبول نہ کیا اس کی بازگشت ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ ضلع راولپنڈی میں زکوة کمیٹیوں کا معاملہ سامنے آگیا جہاں ایک بار پھر غلام سرور خان اور صداقت عباسی گروپ نے قانو گو ساگری میں مقامی طور پر کمیٹیوں تشکیل دینے کے لیے اپنے اپنے دھڑوں سے نام لینے شروع کر دیئے یہ معاملہ دونوں دھڑوں نے اپنے اپنے سپہ سالاروں کے گوش گزار کیے جہاں پر دونوں لیڈران خم ٹھونک کر میدان میں آگئے غلام سرور خان گروپ کا کہنا ہے کہ ترقیاتی اور مصالحتی کمیٹیوں کی تشکیل میں ہمارے دھڑے کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے اور اب ہمارا حق بنتا ہے جبکہ صداقت عباسی گروپ کا دعوی ہے کہ ہمارے حلقہ میں کسی اور کی مداخلت کیسے ہو سکتی ہے دونوں گروپس کے نام کی فائلیں زکوة کے ضلعی آفس میں موجود ہیں لیکن فیصلہ نہیں ہو پا رہا دونوں گروپ روزانہ کی بنیاد پر دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں لیکن وہاں پر ایک ہی جواب ہے کہ دونوں ایم این اے کی جانب سے سخت پریشر ہے جبکہ اسی سیاسی کشمکش کی وجہ سے ڈی سی راولپنڈی بھی حتمی فیصلہ کرتے نظر نہیں آتے۔ دوسری جانب صداقت عباسی گروپ کا کہنا ہے کہ تمام معاملات صداقت عباسی کے گوش گزار کر رکھے ہیں وہ اپنے حلقہ میں کسی دوسرے کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ اب سیاسی جنگ اور معاملات کس طرف جائیں گے یقیناً کوئی بھی دھڑا پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے اگر ماضی قریب میں نظر ڈالیں تو غلام سرور خان نے الیکشن سے قبل بھی کرنل اجمل صابر راجہ سے سیاسی ہاتھ کیا تھا اور الیکشن سے قبل کیے گئے اعلان کے بعد انہوں نے اس حلقہ کو نہ صرف چھوڑنے سے انکار کیا بلکہ انہوں نے اپنی آبائی چھوڑی ہوئی سیٹ پر اپنے فرزند ارجمند کو الیکشن لڑوایا یقیناً موجودہ صورتحال بھی کافی گھمبیر نظر آتی ہے اور صداقت عباسی کا دھڑا اس بات کا کھل کھلا کر اعلان کرتا نظر آتا ہے کہ اگرکمیٹیوں کی تشکیل کر بھی دی گئی تو وہ اپنے حلقہ میں اس کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے جبکہ اس کے برعکس مستحقین زکوة بڑوں کی لڑائی میں خوار ہو رہے ہیں۔ گزشتہ تقریباً 9 ماہ تبدیلی سرکار جہاں عام آدمی کو کوئی ریلیف نہ دے سکی وہاں پر زکوة پر گزر بسر کر نے والے بھی اپنے نصیبوں کو رو رہے ہیں انہیں مکمل طور پر بے ےارومدگار چھوڑ دیا گیا ہے اور موجودہ رمضان کی مہنگائی نے جہاں عام آدمی کی چیخیں نکال دی ہیں وہاں پر مستحقین زکوة کی دھاڑیں یقیناً ساتویں آسمان تک جا رہی ہوں گی گوکہ اس وقت ایک سیاسی جمود کی کیفیت ہے لیکن این اے 59 پی پی 10اب بھی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے اس کی بڑی وجہ شاید چوہدری نثار علی خان کے پے درپے دورے ہیں لیکن کسی سیانے نے کیا سچ کہا ہے کہ وقت ہمیشہ کبھی ایک سا نہیں رہتا اس حلقہ میں جہاں کبھی چوہدری نثار کا دورہ ہوتا تو روات کلر سیداں روڈ پر بینر ہورڈنگ کی ایک بہار ہوتی تھی اور چوہدری نثار بڑی کروفر سے آتے تھے اب خاموشی سے آنے لگے ہیں اور ان کے گرد موجود رہنے والے اور ان سے ہاتھ ملانے کے لیے منتیں ترلے والے بھی شاید کسی نئے گھونسلے کی تلاش میں نکل پڑے کیونکہ بلاشبہ ہماری سیاست مفادات کی ہے جب بھی کہیں سے کسی کا مفاد ختم ہوا اس نے اپنا رخت سفر باندھ لیا۔ دوسری جانب چوہدری نثار کے دوروں نے شاید ن لیگ کی قیادت کو جگا دیا ن لیگی رہنماوں نے بھی اپنی خاموشی کو توڑنے کا آغاز یوسی تخت پڑی ایک افطار پارٹی سے کیا جہاں پر شاہد خاقان عباسی‘ قمرالسلام راجہ‘ نوید بھٹی سمیت ن لیگ کی سینئر قیادت موجود تھی۔ افطار ڈنر کے ساتھ ساتھ ن لیگی لیڈران نے حسب روایات تنقید کے نشتر برسائے ایک بات تو طے ہے کہ اگر تحریک انصاف کی قیادت نے باہمی چپقلش کو نہ چھوڑا اور کھینچا تانی کی روش پر چلتے رہے تو یقیناً ان کو آمدہ بلدیاتی الیکشن میں بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں