صاحبزادہ حق خطیب حسین کا دم شفاء بن گیا/ شہزاد رضا

آستانہ عالیہ بلاوڑہ شریف جن کے دم قدم سے آباد ہے میری مراد پیر صوبیدار مسنجف علی سرکار ہیں انہی کے صاحبزادہ حق خطیب حسین علی بادشاہ سجادہ نشین بلاوڑہ شریف کوٹلی ستیاں ہر بدھ اور ہفتہ کو کلرسیداں بائی پاس روڈ لونی جندراں کے مقام پر عوام الناس کو مختلف روحانی وجسمانی امراض میں مبتلا مریضوں کو دم ڈالتے ہیں اور ملک کے طول و عرض سے آئے کئی ہزار لوگ ان کے پاس بسیں ،ٹیوٹا آئی ایس اور پرائیویٹ گاڑیوں میں یہاں آتے ہیں ان دودنوں میں تحصیل کلرسیداں کی تاریخ کا سب سے بڑا انسانی اجتماع ہو تا ہے اجتماع میں موجود لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ مختلف امراض میں مبتلا لوگ جن میں کینسر،کالایرقان، شوگر اور دل کے مرضوں میں مبتلا لوگ یہاں صاحبزادہ صاحب کے پاس دم ڈلوانے آتے ہیں جو مریض صاحبزادہ صاحب سے ایک یادو مرتبہ ڈلوانے کے بعد میڈیکل رپورٹس حاصل کرتے ہیں ان کی ٹیسٹ رپورٹس بھی کافی مثبت آتی ہیں جس کی وجہ سے لوگ یہاں ایک بار نہیں کئی ہفتوں اور مہینوں تک لگاتار چکر لگاتے رہتے ہیں صاحبزادہ صاحب ہفتے میں دو دن لونی جندراں کلرسیداں کے مقام پر اور باقی دنوں میں آستانہ عالیہ بلاوڑہ شریف میں موجود ہوتے ہیں دربار کی انتظامیہ اب تک اپنی مدد آپ کے تحت سارے انتظام و انصرام کر رہی ہے میری معلومات کے مطابق دم ڈلوانے کے لیے آنے والے افراد کے لیے کھانے پینے کے انتظام میں صاحبزادہ صاحب کے مریدین ہی برادشت کر رہے ہیں خواہ وہ نظام لنگر کا ہو یا کوئی اور ۔رہائش کے لیے مناسب انتظام ابھی تک یہاں موجود نہیں کیونکہ آنے والے معتقدین میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوتے ہیں بچے ،بوڑھے جوان مردو خواتین بالخصوص مریض لوگ جن کو ویل چیئرز پر یہاں لایا جاتا ہے ان کے رہائش کا نظام ہونا نہایت ضروری ہے لنگرکا نظام انتہائی وسیع ہے جو رات گئے تک جاری رہتا ہے صاحبزادہ صاحب کے دم ڈالنے کی کوئی فیس مقرر تو نہیں ہے مگر لوگ درباری امور کو چلانے کے لیے حسب توفیق بکس میں پیسے ڈال دیتے ہیں آپ پررونق شخصیت کے مالک ہیں ان کے پاس دم ڈالوانے کی غرض سے صرف مڈل کلاس کے لوگ نہیں بلکہ ایلیٹ کلاس کے افراد بھی آتے ہیں اور ان کے اس روحانی علاج پر حد سے یقین کامل رکھتے ہیں دم ڈالنے کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ دربار میں موجود چار سو سے بانچ سو تک کے افراد کو ایک ہال میں جمع کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک طرف خواتین اور بچے جبکہ دوسری جانب مرد حضرات صف بندی کی شکل میں بٹھایا جاتا ہے بعدازاں اجتماعی طور پر تمام افراد کو دم ودعا بھی ہوجاتی ہے اس کے بعد صاحبزادہ صاحب ہال کے باہر کی طرف موجود گیلری کے ایک کونے میں جا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور صبح فجر تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہتا ہے مریض بالترتیب آتے ہیں اور ان سے ان کا مرض پوچھنے کے بعد دم ڈالا جاتا ہے یہاں آنے والے مریضوں کا تعلق پاکستان کے ہر صوبہ کے ہر ضلع و تحصیل سے ہوتا ہے یہ بات کہنا غلط نہ ہو گی کہ کلرسیداں میں انسانی تاریخ یہ سب سے بڑا مجمع ہر ہفتہ کو لونی جندراں کے مقام پر ہوتا ہے جو دیکھنے میں اپنی مثال آپ ہوتا ہے
یہ مجمع کلرسیداں کے جس مقام پر ہوتا ہے یہ جگہ تھانہ کلرسیداں کے انتہائی نزدیک اور عقب میں ہے انتظامیہ کلرسیداں یہاں ابھی تک کسی بھی معاملے میں پیش پیش نظر نہیں آئی جو مستقبل میں الارمنگ صورت حال کا سبب بھی بن سکتا ہے آنے والے معتقدین کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے اس لیے گاڑیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے پارکنگ کا نظام نہ ہونے کی وجہ گاڑیاں روڈ دونوں اطراف اور بالخصوص نالہ کانسی پر ہوتی ہے ٹریفک کی روانی میں مشکلات تو یقیناًپیش آتی ہیں مگر پل پر ٹریفک کا لگاتار 24گھنٹے پارک رہنا تشویش ناک بات ہے چند ماہ قبل معروف قانون دان سردار اسحاق خان کی وفات کے موقع پر تمام ٹریفک کی پارکنگ کے لیے انتظامیہ کی طرف نالہ کانسی پل کے ساتھ الگ جگہ مہیا کی گئی تھی جس سے عوام نے کلرسیداں انتظامیہ کے اس اقدام کو سراہا تھا لیکن اس کے بعد پھر سے پارکنگ کا وہی سلسلہ روڈ کے ساتھ اب پھر جاری ہے جوکہ سیکورٹی رسیک کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے.{jcomments on}


اپنا تبصرہ بھیجیں