40

شیشہ پالیسی: تضادات، اثرات اور متاثرہ سرمایہ کار


تحریر: (حماد چوہدری)

اسلام آباد — وفاقی حکومت کی جانب سے حالیہ اقدام جس کے تحت ان ڈور شیشہ کیفے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ آؤٹ ڈور شیشہ کیفے کو قانونی تحفظ حاصل ہے، ایک حیران کن اور متنازعہ فیصلہ بن کر سامنے آیا ہے۔یہ پالیسی بظاہر صحت عامہ کے تحفظ کے لیے متعارف کرائی گئی ہے، لیکن اس میں واضح تضادات اور عملی مسائل موجود ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر شیشہ نوشی صحت کے لیے مضر ہے تو پھر یہ نقصان ان ڈور ہو یا آؤٹ ڈور، ایک جیسا ہی کیوں نہیں سمجھا جا رہا؟ کیا نقصان صرف چھت کے نیچے ہوتا ہے اور کھلی فضا میں نہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات حکومتی مؤقف میں غائب ہیں۔مزید برآں، اسلام آباد میں ایسے درجنوں شیشہ کیفے موجود ہیں جن میں سرمایہ کاروں نے پچاس لاکھ سے لے کر کروڑوں روپے تک کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ نہ تو ان سرمایہ کاروں کو کوئی پیشگی نوٹس جاری کیا گیا، اور نہ ہی انہیں اپنی پوزیشن واضح کرنے کا موقع دیا گیا۔ بلکہ بغیر کسی پیشگی وارننگ کے ان کے کاروبار سیل کیے جا رہے ہیں، جو کہ نہ صرف معاشی نقصان ہے بلکہ قانون کے اصول “سننے کا حق” (Right to be heard) کی بھی خلاف ورزی ہے۔یہی نہیں، شیشہ فلیورز اور سامان آج بھی شہر کی مختلف دکانوں پر آسانی سے دستیاب ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی شہری شیشہ خرید کر لے جا رہا ہو تو راستے میں پولیس ناکوں پر روکے جانا، ہراساں کیا جانا اور مقدمات درج کرنا ایک غیرمنصفانہ رویہ بن چکا ہے۔ اس قسم کے دوہرے معیار نہ صرف شہریوں کا اعتماد مجروح کرتے ہیں بلکہ پولیس اور عوام کے تعلقات میں مزید خلیج پیدا کرتے ہیں۔یہ وقت ہے کہ حکومت اس معاملے کو جذبات یا محض ظاہری کارروائیوں سے نہیں، بلکہ سمجھداری اور طویل المدتی پالیسی کے تحت دیکھے۔ ضروری ہے کہ:سرمایہ کاروں کو کم از کم چھ ماہ کا مہلت نامہ دیا جائے تاکہ وہ اپنی سرمایہ کاری کو بچانے کے لیے متبادل انتظامات کر سکیں۔پالیسی میں یکسانیت لائی جائے — یا تو شیشہ مکمل طور پر ممنوع قرار دیا جائے یا اس کے لیے واضح اور قابلِ عمل ضابطے مرتب کیے جائیں۔پولیس کو اختیارات کے غلط استعمال سے روکا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ شہریوں کے ساتھ انصاف اور عزت سے پیش آیا جائے۔اگر واقعی مقصد عوامی صحت کا تحفظ ہے تو اقدامات کو غیر جانب دار، شفاف اور منصفانہ ہونا چاہیے، نہ کہ منتخب اور مبہم

خبر پر اظہار رائے کریں