شیر پنجاب راجہ زمرد خان زمرد

گوجر خان کی دھرتی نے یوں تو پوٹھوہار کو شعبہ ہائے زندگی میں بیشمار انمول نگینوں اور موتیوں جیسی شخصیات دیں لیکن پوٹھوہاری ادب کی آبیاری کے لیے ہمیشہ نابغہ روزگار شخصیات پیدا کیں۔ انہیں نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک شخصیت کا آج ذکر ہے شرقی گوجر خان میں ایک گاؤں ہے جسے موضع جھانگی عموماً پوٹھوہار جانتا ہے لیکن اس گاؤں کی خصوصی پہچان زمرد خان زمرد مرحوم ہیں جنہوں نے اس چھوٹے سے گاؤں کو پورے پوٹھوہار و کوہسار اور کشمیر سمیت پوٹھوہاری ادب کے حوالے سے دنیا بھر مشہور کر دیا۔آپ یکم جنوری 1937ء کو راجہ گل مواز قوم گکھڑ سکندریال کے گھر پیدا ہوئے آپ تین بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے بڑے تھے ابتدائی دینی تعلیم گاؤں کے مدرس سے حاصل کی جبکہ دنیاوی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول تھاتھی اور مڈل ہائی سکول لہڑی تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم سے کی اس کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور 1957 ء میں پاک فوج انجنئیرز سینٹر رسالپور بھرتی ہوئے جہاں انہوں نے کھیلوں میں حصہ لینے کیلئے تیراکی سیکھی اور 1960ء میں ایسٹ پاکستان اولمپکس میں انٹر سروسز کلر ہولڈر رہے۔

پاک فوج انجینئرز سینٹر رسالپور بھرتی ہوئے جہاں تیراکی سیکھی

آپ نے بطورِ استاد (Swimming Instructor) اپنی خدمات سر انجام دیں اور 1960ء میں شادی ہوئی جس سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تولد ہوئیں جن میں سے ایک بیٹا راجہ ساجد محمود برطانیہ میں مقیم ہیں جبکہ راجہ زوق گھر اور پوٹھوہار کے ادبی معاملات دیکھتے ہیں۔ آپ نوکری سے بطورِ بٹالین حوالدار میجر 1978ء میں ریٹائر ہوئے۔شعر و شاعری سے دلچسپی تو بچپن سے تھی لیکن باقاعدہ طور پر 1962ء میں لکھنا شروع کیا چونکہ آپ بسلسلہ روزگار مختلف علاقوں میں تعینات رہتے تھے جس کی وجہ سے پنشن کے بعد بوساطت راجہ شیر باز خان سکنہ ددہوچھہ راجگان آپ نے عالم دین مولانا قاضی عبد الرشید ؒ کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور باقاعدہ پوٹھوہاری مشاعروں میں شرکت کرنے لگے جس کی وجہ سے 1980ء تک آپ کے مجاز کے چرچے پورے پوٹھوہار میں ہونے لگے۔

شعر و شاعری سے دلچسپی بچپن سے تھی لیکن 1962میں باقاعدہ لکھنا شروع کیا

اسی دوران راجہ نثار نصرت سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے بطورِ چئیرمن انجمن گلستان ادب میں شامل کیا یاد رہے اسی انجمن نے آپکو ” شیر پنجاب” کے لقب سے نوازا۔ آپ کو پوٹھوہار میں مجاز اور موت کی کہانیوں کے حوالہ سے خاص پہچان حاصل ہے۔ آپکی ایک کتاب گلستانِ پوٹھوہار کے نام سے آپکی زندگی میں چھپی تھی۔ جبکہ آپ کو بہترین ادبی خدمات کے اعتراف میں پنجتنی گروپ یوکے کی طرف سے فخر جھانگی ایوارڈ پہلی برسی سائیں گل فیاض کیانی ؒ منعقدہ 2022ء پر دیا گیا جو آپ کے فرزند راجہ ذوق نے وصول کیا۔مشہور مشاعروں میں کھڑی شریف‘ سر جلال خان کرونٹہ‘ مسہ کسوال‘ گوجر خان‘تھاتھی میلہ‘جبر میلہ‘گدڑیام میلہ اور سلطان شہاب الدین غوری شامل ہیں۔شعراء میں آپ کے دوستوں میں راجہ نثار نصرت‘سائیں گل فیاض کیانی ؒ‘ عبدالخالق قلی رح اور راجہ مختار حسین شاد شامل ہیں جبکہ شعرخوان راجہ خادم سکنہ گاڑ سوہاوہ سے انسیت تھی اور سب سے زیادہ کلام بھی انہوں نے ہی محافل میں پیش کیا۔ آپ کے بیٹے زوق کیانی کے مطابق شاگردوں میں راجہ مسعود عالم شامی سکنہ بشندور، عمران کاش اور افتخار فرحت شامل ہیں۔ پوٹھوہار کے پسندیدہ شعراء میں راجہ ولائیت حسین ازہر ؒ، سید حبیب شاہ، حاجی خلیل احمد عاصم اور راجہ عبدالوحید قاسم شامل ہیں۔قریبی دوست صوبیدار عبدالخالق، راجہ نذیر کیانی جھانگی، راجہ شمس ڈھوک منگرال، راجہ یوسف پلینہ، راجہ ارشد گدڑیام اور راجہ جاوید امرال دینہ شامل تھے۔1991ء میں آپ کے بھائیوں اور چاہنے والوں نے ثقافتی دورے پر برطانیہ بلایا جہاں آپ نے کم و بیش چھ ماہ تک قیام کیا۔ اسی دورے سے واپسی پر آپ نے پیر سید بلال بادشاہ ؒکا مزار اور مسجد کی تعمیر کرائی جبکہ سنہ 2002 ء میں فریضہ حج ادا کرنے کے لیے حجاز مقدس تشریف لے گئے۔ مشاعروں میں شرکت اور انداز بیاں کے حوالہ سے خاص پہچان تھی جب آپ سٹیج پر آتے تو عوام وخواص فخر جھانگ کے نعرے لگاتے ہوئے استقبال کرتے بندہ حقیر (راقم) کو بھی آپ کے ساتھ دو مشاعرے پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے۔یہ نابغہ روزگار شخصیت 19 رمضان المبارک بروز پیر 29 جولائی 2013 کو دار فانی سے دار بقا کی طرف عازمِ سفر ہوئے اور آبائی گاؤں میں سپردِ خاک ہوئے۔
انکا ایک سخن پیش خدمت ہے
او مکاندا تے پیا مکائے بھانویں
ساڈی طرفوں جے مکی تے گل کرناں
رکھیا تر کرکے اتھرو نال جسنوں
ہری شاخ او سکی تے گل کرناں
دکھی روح میری بھانویں نکل جاسی
نبضِ عشق کے رکی تے گل کرناں
آویں مویاں وی جھانگی زمرد جے کر
اگوں قبر نہ جھکی تے گل کرناں

اپنا تبصرہ بھیجیں