شیرزمان عرف باوا شیرا

ساری زندگی اس شخص کو محنت کی چکی میں پستے ہوئے دیکھا۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا اس انسان کو انسانیت کی خدمت اور اولاد کیلئے دن رات محنت کرتے ہوئے پایا۔ چند دن قبل ایک شادی میں اس درویش پر نظر پڑی تو مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا جب ہم معصومیت لیے محلے کی گلیوں میں گھوما کرتے تھے اور یہ محنت کش آدمی ہر وقت اپنے بچوں کے لیے دوڑتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ الحمدللہ آج شیر زمان کی اولاد بے شمار سہولیات اور آرام کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر رہی ہے۔ یہ سارا کریڈٹ شیر زمان کے حصے میں آتا ہے۔ اس شخص نے نہ دن دیکھا نہ رات بس کبھی اپنی دوکان میں تو کبھی کھیتوں میں بے شمار سوچوں میں گم ہو کر مشقت لیے سمندر کی لہروں پر تیرتا ہوا دکھائی دیا۔ آج شیر زمان کے پاس زندگی کی ہر نعمت موجود ہے مگر پھر بھی یہ بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا معمر شخص اسی طرح محنت کر رہا ہے جیسے کسی زمانے میں بنیادی سہولتوں کیلئے ہر وقت بھاگا چلا جاتا تھا۔ دوستو یاد رکھیں جس شخص کو محنت کی عادت پڑ جائے وہ مرتے دم تک خود کو مصروف رکھتا ہے اور یہ خصلت میرے رب کی طرف سے بہت بڑا تحفہ ہوتی ہے۔ بڑھاپے کی آخری منزل پر بیٹھا بہترین کردار لیے یہ شخص آج بھی نہ جھکتا ہے نہ تھکتا بس چلتا جاتاہے۔ کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی تو مجھے اپنے والد گرامی راجہ ایوب کی یاد نے رلا دیا۔ وہ شیر زمان کے بارے میں ہر وقت ایک ہی جملہ کہا کرتے تھے اور وہ جملہ یہ تھا۔شیر زمان کی دن رات کی محنت اسے اس دنیا میں بھی کامیاب کرے گی اور آخرت میں بھی جنت اس کے ہاتھ چومے گی کیونکہ اس شخص کو اپنی کبھی فکر نہیں ہوئی بس فکر ہے تو اپنے اردگرد بسنے والوں کی اور اپنی اولاد کی۔ میرے ابا جی کہا کرتے تھے کہ اس شخص سے بات کریں تو بڑے سلیقے سے جواب دیتا ہے مگر رک کر نہیں بس چلتے ہوئے مسکرا کر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے کیونکہ اسے اپنے کاموں کو وقت پر مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اس درویش کے اعمال کی بات کی جائے تو کبھی اس شخص کو کسی گلی یا چوک میں کھڑے نہیں دیکھا گیا۔ اس شخص کا بچپن لڑکپن نوجوانی جوانی اور بڑھاپا سب محنت کی نظر ہوگیا۔ مگر اس انسان کی محنت کا ایک ایک پل اور پہلو سب کچھ کامیاب ترین ٹھہرا اور اسکا ثبوت آج اسکے گھر کی رونقیں اور اولاد کی بہترین پرورش اور بہتر سے بہترین کامیاب زندگی ہے۔ شیر زمان آپ آج کامیاب ترین ٹھہرے کیونکہ آپ کی اولاد جوانی میں بھی آپ ہی کے نقش قدم پر چلتی رہی اور آج بھی اسی طرح گامزن ہے۔ اس دن جب میری نظر شیر زمان پر پڑی تو میں دوڑتا ہوا ان کے پاس گیا اور گلے لگا کر خوب پیار کیا اور آنکھیں بھی نم کر دیں۔ میں نے اپنا تعارف کروایا تو بہت خوش ہوئے اور مجھے دیکھ کر کچھ لمحوں کیلئے خاموش ہو گئے اور گئے دنوں کی یادیں لیے مجھے دیکھتے رہے اور خاموشی کو توڑ کر مجھ سے دھیمے لہجے میں بہت زیادہ وقت میں بہت تھوڑی باتیں کیں کیونکہ اس عمر میں زبان بھی کمزور ہو جایا کرتی ہے اور میں نے محسوس کیا کہ پڑھایا سب کچھ کمزور کر دیتا ہے ماسوائے تربیت کے۔ کیونکہ تربیت ہر آنے والے دنوں میں مزید طاقتور ہوتی جاتی ہے چاہے یہ تربیت اچھی ہو یا بری یہ اسی ڈگر پر چلتی رہتی ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تربیت خود کو بدل دے لہذا انسان ایک خاص وقت تک تربیت تبدیل کر سکتا ہے مگر ایک خاص وقت کے گزرنے کے بعد اسکی تربیت سوتے ہوئے بھی اسی راستے پر چلتی رہتی ہے جس راستے پر کھلی آنکھوں سے چلی تھی۔ میں نے شیر زمان کی تربیت میں مزید نکھار دیکھا اور یہ شخص بند آنکھوں اور سوتے ہوئے بھی اسی باکردار زندگی اور بہترین تربیت پر پہلے سے بہتر انداز میں رواں دواں ہے۔ اس انسان کی زندگی کا ہر لمحہ ہر پل اور تمام پہلو پہلے سے بہتر انداز میں خوشیاں بکھیرتے ہوئے محسوس ہو ئے اس دن اور اس وقت میں نے محسوس کیا کہ یہ شخص اپنے ذہن میں کچھ لیے وہاں بیٹھا تھا اور اس کی بے چینی مجھے محسوس ہو رہی تھی اور پھر وہ شخص کھانا کھا کر سب سے پہلے محفل سے کمزور جسم لیے گمنام سوچوں کے ساتھ چل دیا۔
کیا سوچتا تھا مجھ کو
معلوم تک نہ تھا
بس اتنا پتہ تھا شخص یہ
کچھ سوچ کر گیا

اپنا تبصرہ بھیجیں