سب سے پہلی کہانی‘ سب سے بڑے کہانی کار نے اس وقت لکھی تھی جب اس نے فرشتوں کی ایک جماعت سے کہا تھا کہ”میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں“ فرشتوں نے کہا”ہم آپ کی تسبیح اور تقدیس بیان کرتے ہیں اور یہ آدم زمین پر فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا۔
دوسری کہانی اس کے خلیفہ نے تخلیق کی جب اس نے شجرِممنوعہ کا ذائقہ چکھا اور اس پر نئے انکشافات کے در کھل گئے‘ اگلی کہانی قابیل کے ہاتھوں تکمیل ہوئی
جب اس نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی ماں جائے کا خون کر کے فرشتوں کے گمان کو سچ کر دیا۔کہانی یوں ہی ابدیت کے سفر پر نکلی تھی؛ کہانی اس دن سے اپنا رخ اپنا لہجہ اور اپنا بیانیہ تبدیل کرتی رہی ہے
مگر مری نہیں اس نے زندگی کے سفر میں کبھی تھکن محسوس نہیں کی وہ زندگی کے تضادات کی جڑوں سے پھوٹتی رہی اور اور لمحہ بہ لمحہ شجر ہوتی رہی،شیراز طاہر جب بھی کہانی کی رنگ برنگی تتلی پکڑتا تو اسے مٹھی میں بھینچ کر میرے پاس پہنچ جاتا۔
کہانی لکھ کر وہ ایسے خوش ہوتا تھا جیسے کوئی ماں اپنے پلوٹھی کے بچے کو اپنا محبت بھرا پہلا بوسہ دے کر سرشار ہوجاتی ہے۔وہ کہانی کوتخلیق کرنے کی اذیت بھی عورت کی طرح خوشی سے سہہ لیتا تھا
خدا ہو یا انسان ہر تخلیق کار کو اپنی تخلیق سے محبت ہوتی ہے۔ شیراز طاہرنے بھی اپنے افسانوں کو اولاد کی طرح پالاپوسا تھا۔وہ انہیں بار بار لکھتا تھا کبھی کاغذ پر کبھی کمپیوٹر کی سکرین پر وہ جانتا تھا
کہ اس کی اصل کمائی اس کی تحریر ہی ہے۔وہ کہانی کو دو لخت نہیں ہونے دیتا تھا اس کی کہانی کے سارے مصرعے ایک ہی لہر اور بحر میں ہوتے تھے اس کی تحریر معنویت کے شیرے سے بھری ہوتی تھی خوش ذائقہ بھی اور خوشبودار بھی۔اس کی نگاہیں ہر وقت کہانی اور اس کے لوازمات کی تلاش میں رہتی تھیں
وہ نئے لفظ چننے کا بہت حریص تھا اس کے سامنے جب کبھی پوٹھوہاری کا اجنبی اور نامانوس لفظ بولا جاتا وہ اس فوراً نوٹ کر لیا کرتا تھا اس طرح اس نے پوٹھوہاری زبان اور تہذیب کو ثروت مند بنانے میں زندگی لگا رکھی تھی
وہ کہانی لکھتا نہیں تھا کہانی جیتا تھا کہانی اس کا مشغلہ نہیں مقصدٍحیات تھی۔وہ کہانی کو حاملہ عورت کی طرح پیٹ میں پالتا تھا وہ کہانی کو ذریعہ شہرت نہیں ذریعہء عزت سمجھتا تھا اس کی کہانی ہمیشہ بڑی سکھڑ اور سیانڑی ہوتی تھی۔احباب شاید میری اس رائے سے اتفاق کریں گے
کہ وہ پوٹھوہاری زبان کا واحد کہانی کارہے جس نے بہت اعلیٰ سطح پر تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے جب تک صحت رہی وہ افسانہ جیب میں ڈال کر میرے پاس آ جایا کرتا تھا
وہ بہت دلدار اور محبت کرنے والا دوست تھاہم گھنٹوں بیٹھے باتیں کرتے رہتے اور مسرت اور انبساط کی ایک کیفیت ماحول پر چھائی رہتی،جب چلنے پھرنے میں دشواری ہونے لگی تو بیٹے بدر سے کہتا ”یار مجھے روات چھوڑ آؤ“ کبھی فون کر کے مجھے بلا لیتا۔
سالوں کی رفاقت رہی لیکن اس کے منہ سے کبھی کوئے ناشائستہ لفظ نہ سنا وہ اپنے منصب اور مرتبے کا ہمیشہ خیال رکھتا اور دوسرے شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ عزت سے پیش آتا فراخ دلی سے دوستوں کی مہمان نوازی کر تا اور اس پر مسرت محسوس کرتا،ہر تخلیق کار تنہائی پسند ہوتا ہے
وہ بھی تنہائی کی تلاش میں تھا ااس نے بہت دنوں سے کچھ نہیں لکھا تھا وہ نئے افسانے کی تلاش میں پٹڑی سے اس طرف (گورستان) چلا گیا تاکہ کچھ دن تنہا رہ کر نیا افسانہ تخلیق کر سکے
۔وہ مرا نہیں ہے وہ مر بھی کیسے سکتا ہے جب تک ببو زیوراں اور مولوی سلطان زندہ ہیں وہ بھی زندہ ہے بے شک تتی لوہری چلتی رہے۔کہانی کی ابدیت سچے کہانی کار کو کبھی مرنے نہیں دیتی۔