شہید ہو کر وطن بچایا

وہ جب بھی ملک پاکستان کے دشمنوں کی حقارت بھری باتیں سنتا تو آگ بگولا ہو جاتا۔اس دھرتی ماں پر قربان ہو جانے کی باتیں کرتا تو عجیب سی مسکراہٹیں بکھیرتا ہوا محسوس ہوتا۔اسلام اور وطن عزیز کی خاطرقربان ہو جانے کی باتیں کرتاتو یوں محسوس ہوتا کہ وہ صرف شہادت کا شوقین ہے مگر اس وطن کے لئے اس پاکستان کے لئے۔جی ہاں وہ اسی وطن کے لئے قربان ہو جانا چاہتا تھا کہ جس کو بنانے کے لئے اس کے آبا و اجداد قربان ہو گئے تھے اور آج وہ وطن پاکستان کی صورت میں ہمارے پاس ہے جو ہم سب کا پاکستان ہے،ہم سب کا گھر ہے۔اس کا سارا خاندان پاک فوج میں رہ کر یہ ثابت کر چکا ہے کہ وہ شہداء اور غازیوں کی لڑی میں سے ہے۔جس نے جلدی جانا ہوتا ہے وہ اس طرح خوبصورت باتیں کرتا ہے۔جس نے جلدی جانا ہوتا ہے وہی ملنسار اور خوش اخلاق ہوتا ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ جو سب کا پیارا اور لاڈلا ہوتا ہے وہی رب کا لاڈلا اور پیارا ہوتا ہے۔لہٰذا جو رب کا پیارا ہوتا ہے یقیناوہ اس رب کے پاس جلدی چلا جاتا ہے۔وہ جلدی چلا گیا مگر وطن عزیز کی خاطر قربان ہو کر۔وہ جلدی چلا گیا مگر وہ کر گیا کہ شاید سو سال زندہ رہ کر بھی کوئی نہ کر سکے۔وہ بہت جلدی ستائیس برس کی عمر میں وہاں چلاگیا کہ جہاں سے واپسی کا گمان بھی محال ہے مگر وہ خوش ہے کیونکہ وہ شہید ہے اور شہید کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی وہ جنت میں پہنچ چکا ہوتا ہے۔وہ گھر سے گیا، مگر اپنے گھر والوں کے پاس واپس آ نہ سکا کیونکہ اس نے اس سے زیادہ ضروری کام پر جانا تھا۔وہ پلٹ کر آ نہ سکا کیونکہ اس نے وطن کی خاطر جان فدا کرنے کا عہد کر رکھا تھا لہٰذا فدا ہو گیا۔دنیا کی بہادر ترین فوج کا سپاہی بھلا بارود سے کیسے ڈرتا۔اگر ڈرتا تو وہ دنیا کی نڈر اور بہادر فوج کا سپاہی کیسے بنتا۔لہٰذا 5اپریل2017کو لاہور بیدیاں روڈ پر مزید چار فوجی جوانوں کے ہمراہ وطن عزیز کی ناموس کی خاطر قربان ہو گیامگر دشمن کو یہ باورکروا گیا کہ یہ قوم،یہ فوج نہ جھکنے والی ہے نہ بکنے والی ہے۔جی ہاں مردم شماری کے دوران اپنے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والے تحصیل تلہ گنگ کے شہدا اور غازیوں کے گاؤں بھلومار کے رہائشی شہیدمحمد ارشاد ہی کا ذکر کر رہا ہوں۔جو اللہ اور اس کے پاک رسول ﷺکے نام پر معرض وجود میں آنے والے قائد اعظم کے پاکستان پر قربان ہو گیا۔شہیدمحمد ارشاد کے ساتھ دیگر بہادر جوانوں نے اپنے خون سے اس وطن کی راہیں ہموار کیں اور قربان ہو گئے۔یہ تو پانچ ارشاد تھے۔اس ملک و قوم کے سینکڑوں ارشاد،ہزاروں جوان،لاکھوں اور کروڑوں نوجوان اس وطن عزیز کی ناموس پر قربان ہونے کے لئے بے تاب ہیں۔دشمن نے اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ مردم شماری کے مراحل اس دن بھی طے ہوتے رہے۔جس دن یہ دہشتگردی ہوئی اس دن اس معمول کے کام میں ذرہ برابرخلا پیدا نہ ہوا۔ نہ جانے کتنے جوانوں کو ابھی سہرے سجنے
تھے مگر وہ شہادت کو ترجیح دے گئے۔نہ جانے کتنے جوانوں کے بچے اپنے بابا کا انتظار کرتے کرتے خاموش ہو گئے ہوں گے مگر یاد رہے کہ ان کے بابا جنت میں ان کا انتظار کریں گے۔جب جنت کے باغات ان کی آمد سے سجیں گے تو دشمن اس وقت جہنم کی آگ میں جل رہا ہو گا مگر اسے موت نہیں آئے گی اور وہ ان شہدا کو پھولوں کی سیج پر دیکھ کر مزید جل اٹھیں گے۔یہ دنیا تو عارضی دنیا ہے،وہ دنیا دائمی دنیا ہو گی جہاں ظالموں کو تاحیات جہنم کی آگ میں جلنا ہو گا۔وطن کی مٹی گواہ رہنا کہ اس میں شہدا کا خون چمک رہا ہے۔وطن کی مٹی گواہ رہنا کہ اس مٹی کی چمک یہ بتا رہی ہے کہ یہ جو خلوت جگ مگ جگ مگ کرتی ہے یہ صرف آبا و اجداد اور تا ابد قربان ہونے والے جوانوں کے لہو کی بدولت ہے۔آج پوری دنیا کو معلوم ہے کہ اس ملک میں خون اور آگ کی جو ہولی کھیلی جا رہی ہے وہ صرف اور صرف اسلام کے دشمنوں کی لگائی ہوئی آگ ہے۔مگر یاد رہے کہ ظلم کی رات چاہے کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو اس کی صبح ضرور ہوتی ہے۔دشمن یہ جان لے کہ جو سرزمین اللہ اور اس کے پاک رسول ﷺکے نام پر بنی ہو وہ اس رب کی مرضی کے بغیر کیسے ختم ہو سکتی ہے۔لہٰذا یہ ملک پاکستان تاقیامت شاد و آباد رہے گا۔یہ پنجاب،یہ بلوچستان،یہ سرحد اور یہ سند ھ تا قیامت چمکتا رہے گا اور دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔نہ جانے کتنی سہاگنوں کے سہاگ اجڑے؟ اور یہ ملک بنا۔نہ جانے کتنی ماؤں نے اپنے جگر گوشے اس ملک کی گود میں ڈالے؟ اور یہ ملک بنا۔نہ جانے کتنی بہنوں نے اپنی چوڑیوں کی قربانی دی؟اور یہ ملک بنا۔نہ جانے کتنے شیر خوار شہید ہوئے؟اور یہ ملک بنا۔نہ جانے ابا ابا کی صدائیں لگانے والے کتنے ہی معصوم یک دم چپ سادھ گئے اور یہ پاکستان بنا۔نہ جانے کتنے بڑھاپے کی دہلیز پہ کھڑے بزرگوں نے اپنی نسلوں کی قربانی دی؟اور یہ ملک آبادہوا۔نہ جانے کون،کب اور کہاں کہاں اس ملک کی ناموس کے لئے کٹا؟اور یہ ملک بنا۔نہ جانے کتنے ہی نوجوان ایسے خودکش حملہ آوروں کی زد میں آئے اور قربان ہوئے مگر ڈٹے رہے اور نہ جانے کتنے ارشاد دوبارہ گھر واپس نہ جا سکے اور یہ ملک آج قائم و دائم ہے مگر دشمن یہ مت بھولے کہ یہ ملک ان شا اللہ قائم و دائم ہے اور تاقیامت قائم و دائم ہی رہے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں