یہ ان دنوں میں متحدہ عرب امارات کے دارلحکومت ابو ظہبی میں بسلسلہ روزگار قیام پزیر تھا۔ایک روز ڈیوٹی پر موجود تھا نیٹ والا فون دوران ڈیوٹی چلانے کی اجازت نہیں تھی اس لیے فون جیب میں ہی پڑا رہتا تھا۔۔۔غیر ملکی سپروائزر چائے کی بریک سے واپس آیا تو درد بھرے لہجے میں بولا یار تمھارا ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے بیچارے بچوں کو بھی نہیں چھو ڑتے۔مجھے کچھ پتہ نہ تھا حیرانگی سے دریافت کیا کہ ہوا کیا۔کیوں ایسا کہہ رہے ہو کہنے لگا نیٹ ان کرو اور دیکھوں میں نے جلدی سے فون نکالا نیٹ ان کیا اور فیس بک دیکھنے لگا۔بس یوں ہی فیس بک اوپن کی پوری نیوز فیڈ بھری تھی آرمی پبلک سکول پشاور پر دہست گرد حملہ بچوں سمیت سینکڑوں افراد شہید۔یہ پڑھنا تھا کہ دل بیٹھ گیا،غم سے نڈھال پاکستانی دوستوں کے پاس گیا وہ بھی پریشان تھے ماحول سوگوار ہو گیا اور کئی دن دیار غیر میں دل کی فضا سوگوار رہی۔
پھر رفتہ رفتہ زخم بھرنے لگا اور بچوں کے چہرے بھولنے لگے۔یہ واقع 16 دسمبر 2014 کو ہوا۔مگر ہر سال دسمبر کی سولہ کو یہ دکھ تازہ ہو جاتااور دعا نکلتی کہ خداکرے ایسا دن کبھی لوٹ کر نہ آئے۔مگر کیا خبر تھا ایسا ایک بار پھر دیکھنا نصیب میں لکھا ہے اور تھیک 11 برس بعد یعنی مئی 2005میں یہ تاریخ دہرائی جا ئے گی وہ چمن کے پھول پھر اجاڑے جائیں گے۔
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو ہے جو شہید کا وہ قوم کی زکاتہ ہے۔
یہ شعر کبھی پڑھا سنا کرتے تھے مگر
اس کا پریٹکل مظاہرہ بھی دیکھا
خضدار میں آرمی پبلک سکول بس پر خود کش بمبار حملے کے بعد کلر سیداں کے نواحی گاؤں پلالہ سیداں کے رہائشی بہادر و بلند حوصلہ صوبیدار سلیم کی بیٹیوں علیشیا سلیم اور سحر سلیم کی شہادت سے۔کہ اس ارض پاک کی آبیاری میں صرف دھرتی کے بہادر بیٹوں کا لہو ہی شامل نہیں بلکہ معصوم بچوں اور بچیوں کا لہو بھی شامل ہے۔
کہتے ہیں صوبیدار سلیم کی کوئٹہ سے پوسٹنگ کھارہاں ہو چکی ہوئی جب سحرش،علیشا اور ان کا بھائی سکول الوداعی ملاقات کے لیے جا رہے تھے۔۔مگر ان معصوموں کو کیا خبر تھی یہ سفر ہی ان کی زندگی کا الوداعی سفر بن جائے گا۔۔بس اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی کہ ایک خودکش بمبار کار ا کے ٹکرا گئی اور پھر آگ اور دھواں کی ہولی نظر آئی بس میں لگ بھگ 43 بچے اور دیگر سٹاف سوار تھے جن میں چند بچے موقع پر جانبحق ہو گئے جبکہ متعدد شدید زخمی۔۔۔۔ان ہی شامل تھی کلر سیداں کی بیٹیاں علیشا اور سحر سلیم شہید اور انکا چھوٹا بھائی۔۔
علیشیا موقع پر شہید ہو گئی جبکہ سحر سی ایم ایچ کوئیٹہ میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئیں جبکہ بھائی ابھی تک وینٹیلیٹر ہر موجود
ہے۔۔اللہ ا سکو صحت کاملہ عطا فرمائے۔
علیشیا سلیم اور سحر سلیم کی ڈیڈ باڈیز ان کا باپ صوبیدار سلیم نور خان ائیر بیس راولپنڈی سے کے کر آبائی گاؤں آئے راستے میں جگہ جگہ عوام نے گل پاشی کی نعرہ تکبیر بلند کیا اور اپنی شہید بیٹیوں کا والہانہ استقبال کیا۔۔۔چوکپنڈوڑی کے مقام پر استقبالیہ ریلی سے شہید بچیوں کے بلند حاصلہ آئنی اعصاب کے حامل بہادر باپ صوبیدار سلیم خطاب کرتے ہوئے دشمن کو للکارا کہ,,بزدل بن کر بچوں پر حملہ نہ کرو تم ہم کو ایسے کمزور نہیں کر سکتے،حملہ کرنا ہے تو ہم پر کرو ہمارے سینے حاضر ہیں،،
بعد ازاں آگئی گاؤں میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔۔۔جنازہ میں موجود ہر شخص نے قوم کی شہید بیٹیوں کو سلام عقیدت پیش کیا۔۔۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ کشور کشائی نہ مال غنیمت
طرابلس کی جنگ میں غازیان دین کو پانی پلاتے ہوئے شہید جو جانے والی فاطمہ بنت عبداللہ
کو علامہ اقبال نے بانگ درا میں ایک نظم میں خراج عقیدت پیش کیا
اقبال اس نظم کے چند اشعار آج میں اپنی تحصیل کی بہادر بیٹیوں کے نام کرتا ہوں
فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت، حور صحرائی! تری قسمت میں تھی
غازیان دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر
یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکستر میں تھی!
اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں!
فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے
نغمہ عشرت بھی اپنے نالہ ماتم میں ہے