اسلام میں خوش قسمت خوش نصیب اورسعادت مندلوگ وہ ہیں جنکو اللہ تعالیٰ شہادت کے رتبہ پر فائزکرے یا جوشہادت کا تاج سجا کراپنے رب کے حضور پیش ہوں۔ شہادت کا یہ رتبہ ان کو ملتا ہے جن کے مقدر میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کامیابی لکھ دی جاتی ہے۔ یہ شہداء کی وہ جماعت ہے جنکی صفات وکمالات کوقرآن مجید نے بیان کیاہے ان شہداء اسلام کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے جو لوگ اللہ کے راستہ میں قتل کردئیے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں
تمہیں شعورنہیں۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی ان شہداء اسلام کی عزت، عظمت، فضیلت بیان کی گئی ہے اللہ کے ہاں پسندیدہ جماعتوں کاتذکرہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ اللہ کے ہاں انبیاء کرام علیہم السلام اور صدیقین کے بعد جو پسندیدہ انعام یافتہ جماعت ہے وہ شہداء کی ہی ہے جن پر اللہ نے اپنا خاص فضل کرم،انعام واکرام فرمایا جب سے اسلام وکفر،حق وباطل کا مقابلہ ہوتا چلاآرہا ہے اس وقت سے لیکر آج تک اورآج سے لیکر قیامت کی صبح تک یہ واحد شہداء کی ہی جماعت ہے جواپنا مال وجان لٹا کراپنے خون کانظرانہ دیکراسلام کی اورمسلمانوں کی حفاظت کررہی ہے۔
خون دیکر شہداء نے اسلام کو بچایا ہے ان شہداء اسلام کے خون کی بدولت ہی اسلام کے شجرمیں بہارآئی اسی قربانی کی بدولت مسلمانوں کی عزت وعظمت شان وشوکت میں اصافہ ہوااسی کی بدولت ملک وملت کی حفاظت ممکن ہوئی یہ وہ واحدجماعت ہے جس کے ساتھ اللہ کی مدد ونصرت یقینی ہے۔ شہادت کا جذبہ دنیابھرمیں اللہ نے صرف مسلمانوں کوہی عطاء فرمایا ہے۔ اس جذبہ سے دیگر اقوام محروم ہیں۔ دین اسلام کی سربلندی کے لئے جولوگ مال و جان قربان کرتے ہوئے بہادری،دلیری،جواں مردی اورجاں نثاری کا مظاہرہ کرتے ہیں انکا اللہ کے ہاں اللہ کے رسول کے ہاں دین اسلام میں بہت بلند مقام ومرتبہ ہے۔
سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے شہداء اسلام کو مردہ کہنے سے منع کیا توسورہ آل عمران میں ارشادفرمایاجولوگ اللہ کی راہ میں قتل کردئیے گئے انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ اپنے پروردگار کے ہاں مقرب ہیں انکو رزق بھی ملتاہے ایک اور مقام پرسورہ توبہ میں ارشادباری تعالیٰ ہے بیشک اللہ نے خرید لی ہے مسلمانوں سے ان کی جان اوران کا مال اس قیمت پرکہ ان کیلئے جنت ہے۔ لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں جب یہ آیت رسول اللّہﷺنے صحابہ کرام کو سنائی تو ایک انصاری صحابی کہتے جارہے تھے کہ بیشک یہ نفع کاسوداہے ہم اس بیع کوکبھی فسخ نہیں کریں گے۔
اسی طرح سنن ابی داؤد شریف میں ایک حدیث شریف ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہاروایت فرماتے ہیں کہ رسول اکرم شفیع اعظمﷺنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا جب احدکے میدان میں صحابہ کرام شہید ہوئے تو فرمایا اللہ نے انکی ارواح کوسبز پرندوں کے جسم میں رکھ کرآزاد کر دیا وہ جنت کی نہروں اورباغات سے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں پھر ان قندیلوں میں آجاتے ہیں جوان کیلئے رحمٰن کے عرش کے نیچے معلق ہیں
۔ جب ان لوگوں نے اپنی یہ زندگی دیکھی تو کہنے لگے دنیا میں لوگ ہمارے لئے پریشان ہیں کیا کوئی ہمارے حالات کی خبر ان تک پہنچاسکتاہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں فرمایا رسول اکرم شفیع اعظمﷺنے جو اللہ کے راستہ میں زخمی ہوتا ہے جب قیامت کا دن ہوگا وہ اپنے رب کے ہاں اس حال میں پیش ہوگاکہ اس کے زخم سے خون جاری ہوگا اس کا رنگ تو خون جیسا ہوگا۔لیکن اس میں خوشبو مشک جیسی ہوگی
حضرت سہل
بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ ﷺ جو شخص سچے دل سے اللہ سے شہادت کا طالب ہوتا ہے اللہ اسے شہیدوں کے درجہ پر فائز کر دیتا ہے اگرچہ اسے بستر پرموت آئے ایک حدیث شریف میں آتاہے جو شخص بھی جنت میں داخل ہوگا وہ پسند نہیں کرے گا کہ وہ دوبارہ دنیا میں لوٹے مگرشہید تمناکرے گاکہ وہ دنیا میں دوبارہ لوٹ جائے اور راہ خدامیں باربارشہیدکیاجائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ ﷺ نے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے
میری یہ آرزوہے کہ میں اللہ کی راہ میں شہیدکیاجاؤں پھرزندہ کیاجاؤں پھر شہید کر دیا جاؤں پھرزندہ کیاجاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھرزندہ کیاجاؤں پھرشہیدکردیاجاؤں شہید کی عظمت یہ ہے کہ اس کے خون کا قطرہ گرنے سے قبل ہی اس کے سارے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں شہید کوجان نکلتے وقت اتنی تکلیف ہوتی ہے جتنا کسی کو چیونٹی کاٹ لے شہیدکوحقیقی دائمی کامیابی ونجات ملتی ہے شہیدکی موت دراصل قوم کی حیات ہے شہید وہ ہے جس کی جان کو اللہ خودخرید لیتا ہے شہیدکے جنتی ہونے کی گواہی اللہ، اللہ کا قرآن، نبی کا فرمان اور فرشتے دیتے ہیں،شہیدکوشہادت کے وقت اجر و ثواب دکھادیاجاتاہے،
حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ ﷺ نے شہیدکے اللّٰہ کے ہاں سات انعامات ہیں،خون کے پہلے قطرے گرنے سے قبل ہی اس کی بخشش کردی جاتی ہے اسے جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے،اسے ایمان کاجوڑا پہنایا جاتا ہے،عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے،قیامت والے دن بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا،اس کے سر پر وقارکا تاج رکھا جائے گا، جس کا ایک یاقوت دنیا کی ہرچیزسے بہترہوگا،جنت کی72حوروں سے اسکی شادی کی جائیگی، اپنے عزیز واقارب میں سے70آدمیوں کی سفارش قبول کی جائے گی اس لئے اگرکسی کویہ عظیم نعمت میسرآجائے یا کسی کاگھرانہ شہادت سے منسوب ہوجائے توان گھر والوں کوصبر و تحمل کے ساتھ ساتھ اس عظیم نعمت پرشکراداء کرنا چاہیے
سوچئیے جس شہادت کی امام الانبیاء نے تمنا کی ہواس کا مقام ومرتبہ کیا ھوگا لہذا اس شہیدکی یاد میں ایسے کام ایسے کلمات کرنے سے کہنے سے گریزکرناچاہیے جن سے شریعت نے منع کیا ہوایسے اعمال وافعال کرنے چاہیے جن کوکرنے کا اسلامﷺ نے حکم دیا ہو یاجن کو پیغمبر اسلام نے اصحاب رسولﷺ اور اسلاف نے عملی طورکرکرکہ بتلایا اورسکھلایا ہو۔