شگفتہ مرشد قریشی‘افسانہ نگار و شاعرہ

نثر نگاری میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ آپ 6ستمبر 1983ء کو ملتان میں الحاج حافظ مرشد علی قریشی کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم ملتان میں حاصل کی۔ ان کا گھرانہ خالص مذہبی روایات کا پابند گھرانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گریجویشن کے بعد یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم حاصل نہیں کی۔ آج کل وہ ایک تعلیمی ادارہ چلا رہی ہیں۔شگفتہ مرشد قریشی نے کالج کے زمانے میں ہی افسانہ نگاری کی ابتدا کی۔ ان کا پہلا افسانہ زمانے کو دکھانا ہے

2001ء میں شائع ہوا۔ ان کے تین افسانوی مجموعے لا حاصل2006ء، قیامت 2013 ء اور پھول پہ لکھا تیرا نام 2013ء میں منظر عام پر آئے۔2023 ء میں ان کے دو شعری مجموعے ”وجدان اور عشق ہمسفر“ شائع ہوئے۔ ملتان میں ڈاکٹر قاسم مرحوم کو بابائے اردو کہا جاتا تھا ان کا کہنا تھا کہ شگفتہ مرشد ایسی شاعرہ اور ادیبہ ہے جس کے سامنے لفظ ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوتے ہیں۔ملتان میں الثنا ویلفئر سوسائٹی کی صدر ہیں۔ آپ کی زندگی کے بچپن کے دن اور بچپن کی یادیں؟ بچپن کے دن اور بچپن کے حوالے سے کوئی ایک ہو تو بتاؤں۔ میں بہت شرارتی تھی سب کی پسندیدہ تھی خاص کر امی جان کی بہت لاڈلی تھی سکول میں بھی ہر جگہ آگے ہوتی تھی

نصابی سرگرمیاں ہوں یا غیر نصابی سرگرمیاں۔ بچپن بہت یادگار اور پیار بھراگزرا۔ ایک ہی یاد کیا بہت ساری یادیں ہیں خاص کر یہ کہ مجھے چھپکلی سے بہت ڈر لگتا تھا ایک بار خواب میں محترمہ نظر آگئیں اور پھر بس کیا تھا وہ چیخیں ماریں کہ سارا گھر چیخنے لگا یہاں تک کے بابا صاحب چیچنے لگے یہ واقعہ ہے کہ جو کبھی بھول نہیں پائی۔ میری ابتدائی تعلیم میری امی جان نے دی بہترین ماں تھیں وہ بہت سلجھی ہوئی تھیں۔ تعلیم وتربیت میں کوئی ثانی نہیں تھا اور اس کے بعد ہائی ایجوکیشن کے لئے لا سکول داخلہ ہوا بعد میں خواتین ڈگری کالج سے گریجویشن کیا باقی تعلیم کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔

انسان مرتے دم تک پڑھتا اور لکھتا ہے۔میں آج بھی پڑھ رہی ہوں اور سیکھ رہی ہوں بلکہ اپنے آپ کو طفل مکتب سمجھتی ہوں۔ میرا میدان نثر ہے نثر میں قریبا ًبائیس سال سے کام کر رہی ہوں شاعری خون میں شامل ہے بابا صاحب کو شاعری سے بہت پیار تھا اکثر فی البدیع کہا کرتے تھے اس میں میرا تو کوئی کمال نہیں حالات اور واقعات کو شاعری کی زبان میں بیان کرنے کی کوشش چار سال سے جاری ہے اور جاری رہے گی۔ مجھے زیادہ طور پر نظمیں کہنا اچھا لگتا ہے اور میرا زیادہ کام نثری نظمیں ہے۔ مجھے ڈاکٹر شوزب کاظمی کے پروگرام بہت پسند ہیں اور رہیں گے بس وہیں سے ریڈیو پہ لکھنے کو شوق ہوا اور جب جب موقعہ ملا ہم نے وہاں پہ لکھا بھی اور ہم نے شرکت بھی کی اور اس کے علاوہ ایف ایم 103 کا بہت بڑا نام بہار حسین بہار بھی میری پسندیدہ ریڈیو کی شخصیت ہیں۔ جی ہاں کیوں کہ سادہ پیراہن میں دل کی بات کہنا آسان لگتا ہے۔ جی بالکل ایسا ہی ہے اس کی ایک مثال میں خود ہوں۔ معاشرے میں تبدیلی کے حوالے سے یہ کہنا چاہوں گی کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو تبدیل کریں معاشرہ خود بخود تبدیل ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں بس دوسروں کو کہتے رہتے ہیں

اپنے آپ کا بھی تو تنقیدی جائزہ لینا چاہیے۔محبت واقعی ایسے لوگوں سے ہوتی ہے جو ہمارے لئے بنے ہی نہیں ہوتے۔ اہل قلم کا نفرسوں اور ادیبوں کوسرکاری ایوارڈز دینے سے ادب کو کوئی فائدہ ہوتا ہے؟کے جواب میں کہا کہ جی بالکل یہ بہترین اقدام ہیں۔ آج کی خواتین اہلِ قلم عورتوں کے دکھ درد کے بارے میں لکھنے میں کہاں تک اپناکردا رادا کر رہی ہیں؟ خواتین ہر جگہ موجود ہیں اور شاعری کی تو رمز ہی صنف نازک ہے۔ ملتان کے حوالے سے اہلِ قلم خواتین نے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے اور کر رہی ہیں جس سے معاشرے میں یقیناً بہتری آئے گی۔ میں خوش نصیب عورت ہوں جسے اپنے محرم سے عشق ہوا۔ معلوم نہیں محبت کب عشق میں ڈھل گئی احساس تب ہوا وہ پاس نہ بھی ہوں تو ہمیشہ ان کی مہک میں خود کو محصور پایا۔ محبت کا ئنات کا حسن ہے خوبصورت ترین احساس ہے۔ کسی سے شدید محبت ہو تو محبوب میسر نہ بھی ہو تو محبت اپنے اندر ہی سکون کا ایسا احساس رکھتی ہے

جو محبوب کا خیال آنے سے ہی رگ و پے میں سرایت کر جاتاہے۔ محبت خالق کا ئنات تک رسائی دیتی ہے۔ محبت دو اجنبی دلوں کو ان دیکھے رشتے میں باندھ دیتی ہے۔ محبت روح ہے جسم مر جاتے ہیں محبت زندہ رہتی ہے۔ میرا محبوب مجھ سے کتنا ہی دور سہی وہ دل بن کر میرے سینے میں دھڑکتا ہے۔ میری ہر سانس کے ساتھ معلوم نہیں کب محبت نے عشق کا پیراہن پہنا اور عشق ہمسفر وجود میں آئی۔ لوگ سمجھتے تھے میرے شوہر نے مجھے ادب سے دور کر دیا ایسا ہر گز نہیں ہے وہ ایک ادب نواز بہترین ذوق رکھنے والی شخصیت کے مالک ہیں۔ انسان کی پہلی درس گاہ اس کی ماں ہوتی ہے میں سمجھتی ہوں کہ آج میں جس بھی مقام پر ہوں یہ سب ان کی اور میرے والد محترم کی تربیت کی بدولت ہے۔اس کے علاوہ میرا چھوٹا بھائی محمد کاشف مرشد کوئی بھی مشاعرہ ہوتا لاہور بہاولپور مجھے وہ گاڑی میں ساتھ لے جاتا یہ کہنا بے

جا نہ ہوگا میں آج جس مقام پہ ہوں اس کا سہرا میرے بھائی کے سر جاتا ہے میں اپنے بھائی کو کبھی نہیں بھول سکتی اللہ میرے بھائی کی مغفرت فرمائے۔ شادی کے بعد میرے شوہر نے میرا بہت ساتھ دیا آپ کے اس انٹرویو کے ذریعے میں ان کو یہ پیغام دینا چاہوں گی میرے ہم سفر آپ کا بے حد شکریہ کہ آپ نے میری آگے بڑھنے میں مدد کی اور آپ یقیناً معاشرے کے لئے ایک مثال ہیں اور خاص کر ان خواتین کے لئے میں یہ کہنا چاہوں گی جو اس ڈر سے شادی نہیں کرتی کہ ان کے شوہر ان کی لکھنے میں مدد نہیں کریں گے یہ بے معنی ہے اگر آپ صحیح ہیں تو آپ کے شریک سفر ہر گز بھی آپ کا کام نہیں روکیں گے بلکہ معاون ثابت ہوں گے۔ یقیناً محرم سے محبت زندگی کا حسن ہے۔ میری پسندیدہ شاعری کتاب عشق ہمسفر میں شامل ہے فتوی

دعائیں یاد تھیں جتنی
وہ ساری پھونک لیں خود پر
وظائف جو بھی آتے تھے
وہ سارے پڑھ لیے میں نے
مگر پھر بھی میرے دل میں
سکوں داخل نہیں ہوتا
تمہیں ہجرت ہی کرنی تھی
تو کچھ میرا بھی کر جاتے
کسی کو توڑ کر
سنتے ہیں
کچھ حاصل نہیں ہوتا
کسی کے چھوڑ جانے سے
کسی کی جان جائے تو
مجھے فتوی یہ لینا ہے
کیا وہ قاتل نہیں ہوتا

اپنا تبصرہ بھیجیں