شکیل چاچا کے آنسو نما الفاظ

کسی طاقتور اور امیر شخص کو دیکھ کر مُسکرا دینا اور انتہائی ادّب اور خوشی سے ملنا اور کسی غریب اور کمزور انسان کو دیکھ کر سینا تان لینا اور تکبر سے ملنا کم ظرفوں کی نشانی ہوا کرتی ہے۔ ربّ کی ذات غربت، امارات، طاقت اور کمزوری دے کر انسان کو آزماتی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں انسان آزمائش کی چکی میں سی سی ٹی وی کیمروں کی ذد میں ہوتا ہے۔ آج کل کے سی سی ٹی وی کیمرے دل کا حال ہر گز بیان نہیں کر پاتے۔ ان کیمروں میں وہی نظر آتا ہے جو انسان بظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ مگر ربّ کی ذات کے اذل سے بنائے گئے سی سی ٹی وی کیمرے بند کمرے کے اند کی جانے والی حرکات و سکنات اور اس کے دماغ میں آنے والے خیالات اور تمام نیتوں کو ایک ریکارڈنگ کی صورت میں محفوظ کر کے روزِ قیامت بیوی بچوں، والدین، بہنوں بھائیوں اور ارد گرد کے باسیوں کے سامنے چلائی جائے گی۔ در اصل ہوا یوں کہ میں مری مال روڈ پر چند لمحوں کے لیئے رُکا۔ میرے ساتھ65برس کے بزرگ ہاتھوں میں ٹرالی لیئے کھڑے تھے۔ یہ ٹرالی دراصل مال روڈ سے پنڈی پوائنٹ جاتے ہوئے افراد جب تھک جاتے ہیں تو اس کو کرائے پر لے کر پنڈی پوائنٹ یا پھر کشمیر پوائنٹ بھی جاتے ہیں۔ اکثر زیادہ وزن والے یا معذور افراد اس پر بیٹھ کر مال روڈ کی سیر کر تے ہیں۔ اس ٹرالی پر مزدوری کرنے والے افراد عمر رسیدہ بھی پائے گئے ہیں۔ مختصر یہ کہ شکیل چاچا میرے پاس تھک کر کھڑا تھا اور مزدوری کی تلاش میں تھا۔ میں رُکا تو چند لمحوں کے لیئے تھا مگر ان سے بات چیت کے دوران تقریباََ 30منٹ گزر گئے۔ اس دن شکیل چاچا سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ کہنے لگے میری چار بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹاہے جس کا نام عقیل ہے۔ میں نے کہا بیٹیاں تو ربّ کی طرف سے رحمت ہوتی ہیں یہ سُن کر شکیل چاچا کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ کہنے لگے کہ واقعی بیٹیاں ربّ کی رحمت ہی تو ہوتی ہیں۔ ان کی باتوں میں انتہا کا یقین اور ایمان تھا مگر رونے کی وجہ نہ معلوم ہو سکی۔ میرے خیال میں چاچا کی ہڈیاں درد کر رہی تھی یا کمزورجسم اتنا بوجھ برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ اس دن کافی گپ شپ ہوئی۔ شکیل چاچا کو گلے لگا کر میں نے بھی بھائی چارے کا حق ادا کر دیا۔ کہنے لگے چار بیٹیوں کی شادی کر دی ہیں اور بیٹے عقیل کی شادی ہوئے کافی برس گزر گئے ہیں۔ میں نے ان سے عقیل کی اولاد کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے عقیل کی بھی پانچ بیٹیاں ہیں۔ بس یہ کہہ کرشکیل چاچا پھرروپڑے۔ اس رونے کے دوران آواز نہ ہونے کے برابر تھی بالکل سمندر کی طرح۔ مگر آنکھیں مکمل طور پر سمندر میں تیرتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ میں نے کہا رحمتوں کے سمندر میں رہ کر بھی آپ رو رہے ہیں۔ اس کے بعد ان کے جواب کے ایک جملے نے میرا کلیجہ چیر کر رکھ دیا۔ یہ جواب میں نے ان کی ساون زدہ آنکھوں پر موجود پلکوں کی جنبش سے محسوس کر لیا۔ وہ نہ بول کر بھی بہت کچھ کہہ گئے۔ انکی بے چینی اور اضطراب سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ وہ اپنی کسی بیٹی کے نصیب پر غم ذدہ تھے۔ سینکڑوں افراد کی موجودگی میں میں نے شکیل چاچا کو گلے لگا کر ان کے دُکھ میں اپنا خوب حصہ ڈالا اور دسمبر کی جمی ہوئی برف والے میرے آنسو ندی کی طرح رواں ہونے لگے۔ شکیل چاچانے کہا میں کسی روزوقت نکال کر آپ کے لیئے خصوصی دُعا کروں گا۔ میں نے کہا بہت شکریہ مگر میرے لیئے آپ کیوں دُعا کریں گے۔ کہنے لگے اپنے ارد گرد دیکھیں یہ دُنیا کتنی مصروف ہے اور آپ نے مجھے اپنا بہت قیمتی وقت دیا۔ کہنے لگے آج کل کون کسی کے دُکھ درد کا ساتھی بنتا ہے۔ میں نے کہا بڑی دُنیا ہے
جو آج بھی دوسروں کے لیئے سوچتی ہے اوراُن کے لیئے اپنا دن رات ایک کر دیتی ہے۔ شکیل چاچا کہنے لگا وہ کیسے۔ میں نے کہا آپ خود کو ہی دیکھ لیں پچھلے 30منٹ سے آپ اپنی مزدوری چھوڑ کر میرے پاس کھڑے ہیں اور اپنی زندگی کے تجربات بیان کر کے مجھے راہ راست پر لا رہے ہیں۔ کہنے لگے میں تو اَن پڑھ ہوں میں کیسے آپ کو راہ راست پر لا سکتا ہوں۔ میں نے کہا میں پڑھا لکھا ہوں لیکن میرے والدین اَن پڑھ۔۔۔۔۔۔لیکن مجھے راہِ راست پر لانے میں سب سے اہم کردار میرے والدین کا ہے۔ اگر وہ پڑھے لکھے ہوتے تو 5برس کی عمر میں مجھے موبائل دے کر اپنی ذمہ داریوں سے لاتعلق ہو جاتے اور میں گلوبل ویلیج میں داخل ہو کر بُرائیوں کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا۔ ایک اَن پڑھ کی اولاد اپنے والدین کو کندھے پر بٹھا کر ہسپتا ل لے جاتی ہے مگر آج کے دور کے پڑھے لکھے افراد میں سے اکثر اپنے والدین کی خدمت کرنے کو عار سمجھتے ہیں۔ قربان جاؤں اُن افراد پر جو آج کے دور میں بھی والدین کی خدمت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ پہلے والے دور سے زیادہ ثواب کے مستحق ہیں۔ اس افراتفری کے دور میں ہر دو قدم کے بعد بُرائی ہے اور ہر شخص بے انتہا مصروف ہے۔ اس بے چین زندگی میں اگر کوئی اپنوں سے بہتر سلوک کرتا ہے تو وہ یقینا جنت کا مستحق ہو گا۔ اور ایسے افراد آج بھی موجود ہیں۔ اچانک چاچا جی نے مجھے کہا آ پ میرے گھر آئیں۔ میرا گاؤں یہاں سے بہت قریب ہے۔ آج آپ مجھ سے وعدہ کر کے جائیں کہ آپ میرے گھر ضرور آئیں گے۔ میں نے فوراََپیشکش قبول کر لی۔ اُس دن میں اور چاچا شکیل بے حد سکوں محسوس کر رہے تھے۔ شائد اس لیئے کہ وہ ہمدردانہ الفاظ میں نے اور چاچا شکیل نے زمین کی ساتویں تہہ سے نکال کر اس زمین پر لے آئے کہ جس زمین کو ان الفاظ کی ضرورت تھی۔ میں نے چاچا جی کے ساتھ ایک تصویر بنوائی اور تیسری دفعہ مصافع کر کے ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں