الحمدللہ، شہر اسلام آباد اس وقت فروغ حمدونعت کے حوالے سے ملک کے دیگرشہروں سے دو قدم آگے نظرآتا ہے۔ یہاں موجود ”محفلِ نعت” اور ”بزم حمدونعت” جیسی ادبی تنظیمیں حمدونعت کی ترویج کے لیے برسوں سے مصروفِ عمل ہیں۔ ”محفلِ نعت” گزشتہ36 برسوں سے ماہانہ نعتیہ محافل کا انعقاد اسلام آباد کے گوشے گوشے میں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ”بزم حمدونعت” ۲۷۵ ماہانہ نعتیہ محافل منعقد کر چکی ہے۔
ان کے پیچھے قبلہ عرش ہاشمی اور حافظ نوراحمدقادری کی مساعیہ جلیلہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تقریباً پانچ برس قبل اسلام آباد میں ’محفل نعت‘ کی خواتین شاخ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کی سرپرستی محترمہ سبین یونس فرما رہی ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے اب تک 56 نعتیہ محافل سجائی جا چکی ہیں۔’محفل نعت‘خواتین شاخ کی برکت سے اس شہر کی شاعرات کو ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آ گیا جہاں وہ مل بیٹھ کر فروغِ نعت جیسی بابرکت سرگرمی میں حصہ لے رہی ہیں اور نعت کی صنف میں لکھنے والوں کے ذوق و شوق میں اضافہ ہو رہا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں شمسہ نورین ایک باصلاحیت شاعرہ کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ پوٹھوہاری ان کی مادری زبان ہے جس میں وہ اپنی شعری تخلیقات کا اظہار کر رہی ہیں جبکہ اردو زبان میں بھی ان کی طبع سہولت سے رواں دواں ہے۔ یہ بات بہت ہی خوش آئند ہے کہ ہماری شاعرات دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ اب خصوصیت کے ساتھ نعت گوئی کی طرف راغب ہیں جس کی مثال وہ نعتیہ مجموعہ ہیں جو آئے روز منظرِ عام پر آ رہے ہیں۔’آبجوئے نور‘ محترمہ شمسہ نورین کا نعتیہ مجموعہ ہے۔ اس سے قبل وہ پوٹھوہاری شعری مجموعے ’پھل چہولی نیں‘ سے شعری و ادبی حلقوں میں اپنی شناخت بنا چکی ہیں۔
شمسہ نورین نے عشق رسول کو حرزِ جاں بناتے ہوئے نعت کہی ہے۔ عقیدت و مودت اور اخلاص سے بھرپور ان کی نعوتِ مبارکہ قاری کے دل و دماغ پر سحر آفریں اثرات مرتب کرتی ہیں۔ سرکارِ دو عالم ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات پر درود بھیجنا خالقِ کائنات کی سنت ہے۔ یہ فرشتوں کے روزوشب کا وظیفہ ہے۔ شمسہ نورین نے بھی اسی دعا کو اپنی شاعری کا محور بنایا ہوا ہے۔ ان اظہار دیکھیں:
خرامِ خامہ سے آئے صدائے صلِ علیٰ
یوں سہل مجھ پہ ثنائے رسول ہو جائے
وہ کہتی ہیں کہ اے رب! میرے قلم کی ہر جنبش، ہر حرکت ایسی ہو جائے کہ جیسے وہ خود ہی درودِ پاک پڑھ رہا ہو۔میرے لیے نبی پاک ﷺ کی تعریف لکھنا ایسا سہل ہو جائے جیسے سانس لینا۔کوئی رکاوٹ نہ ہو، کوئی تصنع نہ ہو، بس اخلاص ہو اور عشق ہو۔ شمسہ نورین کے ہاں نعت لکھنا کوئی فنی مشق نہیں بلکہ دل کی صدا بن کر سامنے آتی ہے۔ وہ قلم کو محض ایک آلہ نہیں، بلکہ ایک ’ذاکر‘ کے طور پر دیکھتی ہیں۔یہ نعت محض ادب کا عمل نہیں، بلکہ عشق کا اظہار بھی ہے۔خرامِ خامہ” ایک نہایت دلکش استعاراتی ترکیب ہے”صدائے صلِ علیٰ” اس میں آواز، ذکر اور محبت تینوں کی کیفیت سمائی ہوئی ہے۔سہل مجھ پہ ” میں تمنّا اور عاجزی جھلک رہی ہے۔
ہر شخص کو یہ عظیم مرتبہ حاصل نہیں ہوتا کہ وہ عشقِ رسول ﷺ کی راہ پر چل سکے۔ یہ ایک خاص نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ کچھ چنیدہ (منتخب) بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ یہ لوگ اپنے دلوں میں اتنی گہرائی سے نبی کریم ﷺ کی محبت رکھتے ہیں کہ ان کا دل خود نعتِ نبی ﷺ کا مظہر بن جاتا ہے۔ گویا ان کے جذبات، خیالات اور کیفیات خود نعت میں ڈھل جاتی ہیں۔ اس کا اظہار شمسہ نورین کے ہاں اس طرح سے ہوتا ہے:
کچھ لوگ چنیدہ ہیں رہِ عشقِ محمد
کچھ خاص ہیں دل جن پہ عیاں نعتِ نبی ہے
شمسہ نورین عشقِ نبی ﷺ کو ایک راستے کے طور پر دیکھتی ہیں وہ راستہ جو روحانی سفر کی علامت ہے۔نعتِ نبی عیاں ہونا” کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف زبانی کلامی نعت کہہ رہی ہیں، بلکہ ان کا باطن، ان کی سوچ، ان کے جذبات سب کچھ نعت بن چکے ہیں۔یہ شعر ایک روحانی مرتبہ کو بیان کرتا ہے جو عام لوگوں کو نہیں بلکہ خالص دلوں والے، سچے عاشقانِ رسول ﷺ کو ملتا ہیبلا شبہ، سرکارِ دو جہاں، رحمت اللعالمین بن کر آئے۔ ان کی شفاعتیں تمام کائنات کے لیے ہیں۔ ان کی تعلیمات سے ہر کوئی فیض اٹھا سکتاہے۔ زمانے ان کے افکار کی روشنی میں اپنے لیے بہترین راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے نورِ جمال کی ایک لَو، ایک ہلکی سی چمک پوری دنیا کو منور کرنے کے لیے کافی ہے۔اُن کے نور کی گزرگاہ سے، اُن کے قدموں کی راہ سے روشنی بٹتی ہے — جس میں صرف زمین نہیں، دل بھی روشن ہوتے ہیں۔ شمسہ نورین اس حقیقت کا اظہار اس طرح کرتی ہیں۔
روشن ہے زمانہ ترے کردارِ کی لو سے
بٹتی ہے ضیاء کوچہ _انوار کی لو سے
یہ شعر ایک نعتیہ تجلی ہے۔ یہاں ”زمانہ” محض وقت یا دنیا نہیں، بلکہ کائناتی وسعت کی علامت ہے۔”انوار کی لَو” وہ روحانی نور ہے جو نبی کریم ﷺ کی ذات سے پھوٹتا ہے۔”کوچہء انوار” میں شاعرہ نے مدینہ کی گلیوں کو روحانیت کا مرکز بنا دیا ہے۔گویا وہ جگہ نہیں، فیضان کا سرچشمہ ہے۔ شاعرہ نے نور، روشنی، ضیا، لَو جیسے الفاظ سے نوری دنیا کا نقشہ کھینچ دیا۔یہ شعر بتاتا ہے کہ:دنیا کی اصل روشنی، ترقی، سکون اور ہدایت، نبی کریم ﷺ کے نور سے وابستہ ہیجو اُن کے کوچے سے جڑتا ہے، وہ خود بھی ”ضیا بانٹنے والا” بن جاتا ہے۔درودِ پاک محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ وہ نوری زنجیر ہے جو بندے کو براہِ راست رحمتِ الٰہی سے جوڑ دیتی ہے۔ جو دل ذکرِ مصطفیٰ ﷺ سے مہکنے لگتا ہے، اس پر رحمت کے در کھلنے لگتے ہیں۔ درود وہ مقدس صدا ہے جسے فرشتے اپنی پلکوں پر اٹھاتے ہیں، اور جس کا جواب خود ربِ کریم دیتا ہے۔ جو شخص درود کو اپنا ورد بناتاہے، اس کی دعائیں رد نہیں ہوتیں، اس کے دل کو سکون نصیب ہوتا ہے اور اس کے اعمال نور میں بدل جاتے ہیں۔ درود، نہ صرف گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے، بلکہ روحانی ترقی اور دنیا و آخرت کی فلاح کی کنجی بھی ہے۔ درود سے انسان کی زبان پاک ہوتی ہے، دل منور ہوتا ہے، اور زندگی پر خیر و برکت کی بارش ہونے لگتی ہے۔ یہ وہ خزانہ ہے جو خرچ کیے بغیر بڑھتا ہے، اور اگر کسی کو دیا جائے تو لوٹ کر کثرت سے آتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ’درود پاک” شمسہ نورین کی شعری کائنات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اس کے فضائل و شمائل کی وسعت کی قائل نظر آتی ہیں۔ ان کے ہاں ایسے متعدد اشعار مل جاتے ہیں جن میں درود پاک کی فضلیت بیان کی گئی ہے۔