شعبہ صحافت غیرجانبداری کا متقاضی

صحافت کا بنیادی بلکہ پہلا اصول غیرجانبداری ہے۔ صحافیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو کر اپنے فرائض منصبی سرانجام دیں۔ انہیں کسی ایک شخص، جماعت یا گروہ کی مدح و ذم کرنے کی بجائے حقائق بیان کرنے چاہئیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایک کثیر تعداد صحافیوں کی ایسی پائی جاتی ہے جن کا انداز گفتگو ایسا ہوتا ہے کہ سننے والا انہیں کسی سیاسی جماعت کا ترجمان خیال کرتا ہے۔ وہ حقائق کو بری طرح پیروں تلے روندتے ہوئے اپنی من پسند سیاسی جماعت اور اس کے رہنماؤں کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہوتے ہیں، ان کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جبکہ مخالفین کو برا بھلا کہنے اور ان پر الزامات لگانے میں بھی اس حد تک تجاوز کر جاتے ہیں کہ ان کی دروغ گوئی ان کے انداز بیاں سے چھلکنے لگتی ہے۔حالیہ دور میں بہت سے میڈیا چینل بلکہ ملک کے بڑے اور نامور چینل سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ کسی ایک سیاسی جماعت کے ہر جائز و ناجائز فعل کو جائز اور درست قرار دینے اور مخالف سیاسی جماعت کے ہر فعل کو غلط قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ایک سیاسی جماعت کے تمام افعال کی توضیح و تشریح کر کے انہیں عوام کے سامنے درست بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے وہ کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو، وہ ملک کے لیے کتنا ہی نقصان دہ ہو مگر یہ اسے کسی طرح درست ثا بت کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ انہیں اپنی سیاسی جماعت کا ہر برا فعل بھی اچھا معلوم ہوتا ہے جبکہ مخالف جماعت کا ہر اچھا فعل بھی برا معلوم ہوتا ہے۔ یہ تعصب کی بد ترین مثال ہے۔
جس سیاسی جماعت کو یہ پسند کرتے ہیں اسے ہر طرح سے پذیرائی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے سیاسی جلسوں کی خوب کوریج دیتے ہیں، جلسوں میں موجوددس ہزار لوگوں کو دس لاکھ بنا کر دکھاتے ہیں، جبکہ مخالفین کے جلسوں کوپہلے تو کوریج ہی نہیں دیتے اور اگر دیں بھی تو ان کے دس لاکھ لوگوں کو دس ہزار ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ اپنی من پسند سیاسی جماعت کی ہر مثبت بات کو عوام کے سامنے رکھتے ہیں بلکہ منفی بات کو بھی مثبت بنا کر پیش کرتے ہیں جبکہ مخالفین کی ہر منفی بات کو عوام کے سامنے لاتے ہیں اور ہر مثبت بات کو بھی منفی بنا کر عوام کے سامنے رکھتے ہیں کچھ صحافی یا ٹی وی چینل ایسے ہیں جو کسی ایک جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں وہ اقتدار میں ہو یا نہ ہو وہ اسی کی تعریفیں کرتے ہیں اور اسی کے گن گاتے ہیں مگر کچھ ایسے صحافی بھی ہیں جو ہر صاحب اقتدار کے ہوتے ہیں، یعنی کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے تو یہ اس کی تعریفیں کرنے لگتے ہیں، لیکن جیسے ہی اس کا اقتدار ختم ہوتا ہے تو یہ دوسرے صاحب اقتدار کی تعریفات میں مگن ہو جاتے ہیں اور پہلے والے کو برا بھلا اور کرپٹ قرار دینے لگتے ہیں۔ ایسے افراد کو اپنے فرائض سے نہیں مفادات سے دلچسپی ہوتی ہے اور جب ان کے مفادات کسی سے وابستہ ہوں تو یہ اسی کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں مگر جب ان کے مفادات وہاں سے ختم ہو کر کسی اور سے وابستہ ہو جائیں تو یہ پارٹی بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ایسے افراد نہایت متعصب ہوتے ہیں اور اپنے اس تعصب کی وجہ سے ہی حق و سچ سننے اور کہنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ شعبہئ صحافت کی بدنامی کا باعث ہیں اور اس شعبے سے عوام کا اعتبار ختم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ مفتی شفیعؒ ایسے صحافیوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ”ہمارے ارباب صحافت کا ایک گروہ وہ ہے جو ہر صاحب اقتدار کی مدح و توصیف اور اس کے ہر قول و فعل کی توثیق و تصویب کا خوگر رہا ہے، یہاں تک کہ ایسی مثالیں ہماری صحافت میں ایک دو نہیں بے شمار ہیں کہ ایک شخص کسی
صاحب اقتدار کو اس کے عہدِ حکومت میں آفتاب و مہتاب قرار دیتا ہے اور اس کے ہر جائز و و ناجائز فعل پر ”احسنت و مرحبا” کی صدائیں بلند کرتا ہے لیکن جب اس کا اقتدار ڈھلتا ہے اور اس کا کوئی مخالف حکومت کی کرسی سنبھالتا ہے تو اسے بدترین آمر اور اس کے عہد حکومت کو بدترین عہدِ حکومت قرار دینے میں اسے کوئی باک محسوس نہیں ہوتا۔“(صحافت اور اس کی شرعی حدود، ص:۹)
لہٰذا صحافیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ غیر جانبداری سے اپنے فرائض منصبی سر انجام دیں کسی کی درست بات کو دیکھیں تو اس کی تعریف کریں اور اگر کوئی غیر آئینی، غیر قانونی یا غیر شرعی فعل کا مرتکب ہو تو فوراً اس پر تنقید کریں اور اس کے فعل کو عوام کے سامنے من و عن رکھ دیں۔ صحافیوں کو کسی قسم کی لالچ کے بغیر اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں۔ ہمارے چند بڑے نیوز چینلز کی طرح کسی ایک سیاسی جماعت کی ترجمانی نہیں کرنی چاہیے۔ دین میں بھی جانبداری، بے جا تعریفات، تعصب اور جھوٹ کو نہایت ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے اور معاشرے میں ان سب افعال کو نہایت قبیح سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی اچھا کرے تو اسے اچھا کہیں اور لکھیں اور اگر کوئی برا کرتا ہے تو اسے برا ہی کہیں اور لکھیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت سے ایسی وابستگی نہایت مذموم ہے کہ اس کا ہر فعل درست معلوم ہونے لگے اور دوسروں کاہر فعل غلط۔ اگر صحافیوں میں یہ خصوصیات پیدا ہو جائیں تو صحافت عبادت بن جائے اور عوام اس مقدس شعبے پر اعتماد کرنے لگیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں