اللہ رب کی رحمت شفقت اورخاص مہربانی ہے کہ وہ انسان کوطرح طرح کی نعمتوں سے مالامال کرنے کے بعداس انسان کوایسے مختلف مواقع بارباردیکھنانصیب فرماتاہے جس سے بآسانی انسان اپنی آخرت کا سامان اکھٹاکرنے کے ساتھ ساتھ قلیل وقت میں کثیرتعدادمیں نیکیاں سمیٹ سکے شعبان المعظم ہجری سال کاآٹھواں مہینہ ہے شعبان شعب سے ہے جس کے لفظی معنی شاخ درشاخ کے ہیں اس ماہ میں چوں کہ خیروبرکت کی شاخیں پھوٹتی ہیں اور روزہ دارکی نیکیوں میں درخت کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتاہے
اس وجہ سے اسے شعبان کہاجاتاہے انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنانے کے ساتھ ساتھ انتہائی قیمتی بھی بنایااسے اپنی خاص رحمت برکت سے نوازنے کیلئے مختلف مواقع فراہم کیے پہلی امتوں کی طویل عمر،مضبوط جسم جبکہ امت محمدیہ کی قلیل عمرکے ساتھ ساتھ صحت بھی کمزورہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو خاص انعامات اعزازات سے نوازا محنت ومشقت کم ہے مگراس کابدلہ لامحدود اجروثواب میں بھی انتہاء درجہ کی سعادت چوں کہ یہ ماہ مبارک رمضان المبارک سے قبل ومتصل آتاہے اس کے متعلق رسول اکرم شفیع اعظمؐ نے فرمایاشعبان کے چاندکاشماررکھورمضان المبارک کے لئے ایک دوسری روایت میں اتاہے
کہ رسول اکرم شفیع اعظمؐشعبان کااتناخیال کرتے کہ کسی دوسرے ماہ کااتناخیال ناکرتے نبی کریم روف الرحیمؐاس مہینہ میں اکثرروزہ سے ہوتے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ ؐنے پورے اہتمام کے ساتھ رمضان المبارک کے علاؤہ کسی مہینہ میں پورے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھاکہ نبی کریم روف الرحیمؐنے کسی مہینہ میں شعبان المعظم سے زیادہ روزے رکھے ہیں اسی طرح حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں میں نے رسول اکرمؐکوشعبان اوررمضان کے علاوہ لگاتار دو مہینے کے روزے رکھتے نہیں دیکھا شعبان المعظم میں روزے رکھنے میں حکمت ہے رمضان المبارک کی تعظیم اور تیاری ہے حضرت انس ؐسے روایت ہے وہ فرماتے ہیں رسول مقبول سے سوال کیاگیاکہ رمضان المبارک کے بعدافضل روزہ کون ساہے ارشاد فرمایارمضان کی تیاری میں شعبان کا روزہ یعنی کہ رمضان المبارک کی عزت وعظمت،روحانیت، قرب،خاص انوارات،فیوض و بر کا ت اورمناسبت پیداکرنے کیلئے نفلی روزے کااہتمام کرنا حضرت اسامہ بن زیدؓسے روایت ہے فرمایا رسول مقبو ل ؐنے شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان کامہینہ ہے لوگ اسکی فضیلت سے غافل ہیں حالانکہ اس ماہ میں بندوں کے اعمال پرودگار کی طرف اٹھائے جاتے ہیں لہذا میں چاہتا ہوں
کہ میراعمل بارگاہ الہٰی میں اس حال میں پیش ہوکہ میں روزہ سے ہوں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں میں نے رسول اکرم سے دریافت کیاکہ یارسول اللہؐآپ ماہ شعبان میں اس کثرت سے روضے کیوں رکھتے ہیں ارشادفرمایااس ماہ میں ہراس شخص کانام ملک الموت کے حوالہ کردیاجاتاہے جن کی روحیں اس سال قبض کی جائیں گی لہذا میں اس بات کو پسندکرتا ہوں کہ میرانام اس حال میں حوالہ کیاجائے کہ میں روزہ سے ہوں ایک روایت ترمذی شریف کی حضرت ابوہریرہ ؓسے ملتی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایاجب نصف شعبان رہ جائے توروزے مت رکھوتوعلماء کرام نے اسکی حکمت یہ بیان کی کہ اس حدیث شریف میں ان کمزور لوگوں کو منع کیاگیاہے جن کوکمزوری لاحق ہوجاتی ہو تاکہ
وہ رمضان المبارک کے فرض روزے کسی مرض کے لاحق ہونے کی وجہ سے ناچھوڑدیں نبی کریم روف الرحیم توطاقتورتھے آپؐکو کمزوری لاحق نہیں ہوتی تھی اب اللہ تعالیٰ نے دین اسلام میں ہمارے لئے اجروثواب بھی رکھاخیروبرکت بھی رکھی آسانی بھی رکھی اورہرطرح سے ہماری راہنمائی بھی کی اورہمارے ہدایت،نجات،تعلیم و تربیت,کیلئے اپنے محبوب نبی مقبول نبی کریم روف الرحیم خاتم النبیین کوبھیجاجنہوں نے ہرہرقدم پرہماری راہنمائی کی ہمیں اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے سونے جاگنے میں بھی دین اسلام پرعمل کرنے کے طریقے بتلائے خود عمل کرکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے عملی طور پر ہمیں ہربات سمجھادی ہماری دین ودنیاکی اصلاح بھی کردی ہماری آسانی وراحت کابھی خیال کی الیکن ایک ہم ہیں جو لاپرواہی کی من چاہی زندگی گزارنے میں مشغول ہیں آج کے دور میں ہمیں بحیثیت مسلمان یہ دیکھنااورسوچناھوگاکہ دین اسلام کیاکہتاہے
ہمیں کیاکرناچاہیے اورہم کرکیارہے ہیں جبکہ ہم اسکے مخالف سمت میں دوڑے چلے جارہے ہیں ہم ان باتوں پران اعمال پرعمل پیرا ہیں جو ہمیں سمجھ آجائیں یاجوہمیں اچھے لگے جوہمیں آسان لگیں جبکہ ہونایہ چاہیے جب دین کی بات آجائے ہمیں سوچے سمجھے بغیرعمل کرناچاہیے جبکہ ہم دین کے معاملہ میں بھی یہ دیکھتے ہیں ہمارے لئے آسان کیاہے کچھ مخصوص ایام میں پابندی سے ہم عبادت ذکر،اذکاروغیرہ سے منسوب کرکے اس رات خوب مصروف رہتے ہیں جیسے ہی وہ رات غائب ہوئی پھرسے ہم اپنی سابقہ زندگی کی روش پرچل پڑتے ہیں
جبکہ ہم یہ نہیں سوچتے کہ دین اسلام کے احکامات صرف چند دن یاکچھ مخصوص راتوں تک محدود نہیں ہیں یہ پوراسال مسلمان کی مکمل زندگی صبح وشام سفر وحضرمیں بیماری وتندرستی میں ہرہرلمحہ ہم پرلوگوہوتے ہیں ہم نوافل کی تو پابندی کرتے ہیں لیکن فرائض واجبات کو نظراندازکرتے ہیں ہمیں یہ تمام باتیں مدنظررکھتے ہوئے تمام پہلوؤں پرسوچنے کے ساتھ ساتھ عملی طورپرآگے بڑھناہوگاتاکہ ہم دنیاوآخرت میں سرخرو ہو سکیں