پہلے تاثر کیلئے بے شک انسان کی اچھی فیزیکل اپیرینس مثلاً لباس، باڈی لینگویج وغیرہ اہم کردار ادا کرتی ہے، مگر اس تاثر کو قائم رکھنے، بہترین یا بدترین بنانے کے لیے اس کے بولنے کا انداز، الفاظ کا چناؤ بہت معنی رکھتا ہے۔کس وقت کیا، کیسے اور کس انداز سے کہنا ہے اس بات کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔ نوے فیصد لوگ اپنا نقطہ نظر محض کسی چھوٹی سی کمی کی وجہ سے سمجھا نہیں پاتے۔آپ کا پوائنٹ آف ویو آپ کو چاہے جتنا بھی کلیئر ہو، آپ کا خیال چاہے جتنا بھی شاندار ہو اگر آپ لوگوں کو وہ سہی طریقے سے پہنچا نہیں سکتے تو آپ کی ذہانت، آپ کی تخلیقی سوچ کسی بھی کام کی نہیں۔ مختصر یہ کہ آپ کی ذہانت کا کوئی فائدہ نہیں اگر آپ اپنے الفاظ سے لوگوں کو قائل نہیں کر سکتے یا دوسرے لفظوں میں اگر آپ اپنے آپ کو صحیح اور واضح طور پر بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ اب اگر آپ کے ذہن میں سوال یہ آتا ہے کہ کیا اپنی سوچ، اپنی رائے کو دوسروں کو سمجھانے کے لیے ماس کمیونیکیشن کی ڈگری لینے چلے جائیں؟تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ایک پانچ سال کا غیر ملکی بچہ پاکستانی 20+ نوجوان سے اچھا کیوں بول لیتا ہے؟اب اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ انگریزی میں مار کھا رہے ہیں آپ، تو افسوس کے ساتھ آپ بالکل غلط ہیں! اردو، انگریزی، فرانسیسی، عربی، چینی کچھ بھی بول لیں اس بات سے کوء فرق نہیں پڑتا (اب اس سے پہلے کہ توپوں کا رخ بندہ ناچیز کی طرف موڑ دیا جائے ایک اور بات واضح کردوں میں مانتی ہوں آج کے دور میں انگریزی اور وہ بھی سہی لہجے کے ساتھ مراد یہ کہ منہ ٹیرا کر کہ بولنا نہ آتی ہو تو بدقسمتی سے بولنے والے کو خاص کر کہ ہمارے معاشرے میں جاہل، پینڈو، گوار سمجھا جاتا ہے پر اس بحث کو ابھی کے لیے کنارے لگا کہ موضوع پر واپس آتے ہیں۔)کہ اصل مسئلہ زبان میں نہیں ہے، کیڑا دراصل ہمارے تعلیمی نظام، ہماری سوچ اور پرورش کرنے کے طریقے میں ہے، افسوس کے ساتھ آج تک جو قوم علم کا معنی ہی نہ سمجھ سکی وہ کیا خاک تیر مار لے گی؟ہم نے انگریزوں کا لباس، رہن سہن تو اپنا لیا مگر کیا ہی ہوتا کہ ذرا سی عقل بھی لے لیتے!مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بچوں کو علم سکھانے کے بجا ئے ہارڈ ڈرایؤ سمجھ کر ڈیٹا اسٹور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے انھیں سوال پوچھنے والا نہیں ہاتھ اٹھا کر ‘بے شک’ ‘بے شک’ کرنے والا بنایا جارہا ہے، انہیں اپنے خیالات پیدا کرنے کی تعلیم دینے کے بجائے دوسروں کے نظریات پر عمل کرنا سکھایا جا رہا ہے۔جس تعلیمی نظام میں عملی کام اور ہنر سکھانے کے بجائے بچے کو رٹا لگانا اور نمبر لینا سکھایا جائے گا، تو ایسا بچہ عملی زندگی میں کیسے کامیاب ہوگا؟اب جہاں ماں باپ اور استاد اپنے بچے کی سوال پوچھنے پر حوصلہ افزائی کرنے اور جواب ڈھونڈنے میں مدد کرنے کے بجائے تھپڑ مار کر خاموش کروائیں گے کہ کہیں اس بات کو قبول کرنے سے ان کی توہین نہ ہوجائے کہ وہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں تو وہ بچہ سہم کر ایک وقت پر سوچنا اور جواب طلب کرنا ہی نہ چھوڑے گا تو کیا کرے گا؟جب ایک بچے کے عدم تحفظات کو دور کرنے کے بجائے خود ماں باپ محفل میں بیٹھ کے اس کا مزاق اڑائیں گے تو ایسے بچہ احساسِ کمتری کا شکار ہوکر خود پر اعتماد نہیں کھو بیٹھے گا تو کیا کرے گا؟پہلے بچے کو خود اس کے شیل میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اس کو انٹروورٹ بنایا جاتا ہے اور پھر اسی بچے کو تباہ کرنے والے (مراد یہ کہ والدین، بڑے بہن بھائی، اساتذہ مختصراً معاشرہ) اس کو دوسروں کی مثال دے کر طعنے دیتے ہیں! کہاں کا انصاف ہوا؟اگر آپ اپنے بچے کو دوسروں کے بچوں کی طرح دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کو ویسا بنائیں ناں! ویسے ماں باپ بھی بنیں، اس کو ویسے سپورٹ بھی کریں! مگر نہیں!والدین سمجھتے ہیں کہ تعلیمی ادارے میں داخل کروا دیا، بنیادی ضروریات پوری کردی، ٹیوشن لگوا دی، مولوی صاحب کے ہاتھ میں بچے کو دین سکھانے کے لیے دو سو روپے تھما دیے تو جی فرض ادا ہوگیا!تعلیمی ادارے اور اساتذہ یہ سمجھتے ہیں کہ کاپیوں پر دو سوال لکھوا کہ سرخ پنسل سے ٹک لگا کر بچے کو رٹا لگانے کو کہہ دیا تو بات ختم!مولوی صاحب نے ایک دفعہ قرآن بغیر تجوید، ترجمے کے پڑھا دیا تو وہ بھی بری الذمہ ہوگئے!شخصیت سازی کہاں گئی؟ اس ننھے فرشتے کو دنیا سے نمٹنا کون سکھائے گا؟ وہ اس مشکل زندگی میں کیسے گزارہ کرے گا؟ اور اگر وہ خود صحیح طریقے سے نہیں جان سکے گا تو اگلی نسلوں کا کیا ہوگا؟ آپ نے صرف ایک بچہ نہیں بگاڑا آپ نے نسلیں تباہ کیں ہیں!
222