شجرکاری صدقہ جاریہ

آصف خورشید/کسی بھی خطے میں موسمی تبدیلی کا دارومدار جنگلات پر ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے25%حصے پر جنگلات کا ہونا بے حد ضروری ہے۔بد قسمتی سے پاکستان کے صرف 5%رقبے پر جنگلات ہیں۔ جنگلات جہاں لکڑی حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں وہاں مو سمی تبدیلی کا سبب بھی ہیں ایک چینی مفکر کا مشہور قول ہے کہ “اگر دنیا میں اپنا نام زندہ رکھنا چاہتے ہو توایک عظیم بیٹا پیدا کرو۔ اگر وہ نہیں کر سکتے تو اپنے نام کی ایک کتاب لکھو۔ اگر وہ بھی نہیں کر سکتے تو اپنے نام ایک درخت ضرور لگا دو جو تمہاری پہچان بنے۔ ایران کا مشہور بادشاہ نوشیرواں کا گزر ایک رستے سے ہوا۔دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی درخت لگا رہا ہے۔بادشاہ نے بوڑھے سے پوچھا کہ تمہیں کیا امید ہے کہ جو درخت تم لگا رہے ہوں اس کا پھل بھی تمہیں نصیب ہو گا۔ بوڑھے شخص نے کہا کہ اوروں نے لگائے تھے تو ہم کھا رہے ہیں ہم لگائیں گے تو آنے والے کھائیں گے۔بادشاہ کو بوڑھے شخص کی بات اس قدر پسند آئی کہ اس نے انعام دے دیا۔اسی طرح پرانے وقتوں میں جب بھی کسی علاقے میں کوئی تالاب یا جوہڑ بنایاجاتاتو اس کے سائے کے لیے درخت لگایا جاتا۔ ہر سال کروڑوں درخت مافیا کی نظر ہو کر آگ کا ایندھن بن جاتے ہیں۔جنگلات کے کٹاؤکی شرح شجر کاری کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔جنگلات کے بے دریغ کٹاؤسے درجہ حرارت بھی کافی گرم ہو چکا ہے۔موجودہ حکومت نے جنگلات کی اہمیت کو جانتے ہوئے بلین Treeمنصوبے پر کام کا آغاز کیا۔الگ بات کہ یہ منصوبہ سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔مگر کافی حد تک فائدہ مند بھی رہا۔گزشتہ دو سالوں میں کی جانے والی شجر کاری ایک دہائی کے مقابلے سے بہتر رہی۔یونین کونسل لیول(Level)تک اس آگاہی مہم کو چلایا گیا۔اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے۔سب سے اہم بات ہماری نوجوان نسل جنگلات کی آفادیت کا اندازہ ہو۔جس سے ان کے اندر آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے جنگلات کی اہمیت کااحساس پیدا ہو۔موجودہ حکومت شجر کاری مہم پر کافی توجہ دے رہی ہے۔اگر یہ حکومت شجر کاری مہم کو اپنی پالیسی کا حصہ بنا لے اور اس پر توجہ کے ساتھ ساتھ جنگلات کی بے دریغ کٹائی کو بھی روکے تو ملکی مفاد میں خوش آئند ہے مگر ہمارے ہاں بدقسمتی یہ ہے کہ اگر ایک حکومت شجر کاری مہم پر توجہ دیتی ہے تو دوسری حکومت اسے ایشو بناکراس کو سیاست کی بھینٹ چڑھا کر الگ ایشو بنا دیتی ہے۔ نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ نئی حکومت اس کی طرف توجہ دینا چھوڑ دیتی ہے اور اپنی پالیسی سے نکال دیتی ہے۔
آؤ مل کر لگائیں ا یک شجر پیار سے
جس کا سایہ ہم سائے کے آنگن میں جائے

اپنا تبصرہ بھیجیں