شب برأت ہےبخشش کی رات

پروفیسر ڈاکٹر محمد ظفر اقبال جلالی

شعبان المعظم بڑی ہی عظمت وفضیلت والا مہینہ ہے ۔حضور نبی اکرم ﷺ
نے اسے اپنا مہینہ قرار دیا ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا:شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے ۔حضور نبی اکرم ﷺ اس ماہ مبارک میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے
ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شب برات کہا جاتا ہے۔شب کے معنی ہیں رات اوربرأت کے معنی بری ہونے کے ہیں۔چونکہ اس رات مسلمان توبہ کر کے گناہوں سے قطع تعلقی اور برأت کا اظہار کرتے ہیں اوراللہ کی رحمت سے بے شمارمسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ برأت کہتے ہیں اس رات اللہ عزوجل دنیا والوں پر تجلی خاص فرماتا ہے اور بندوں کو خطاب فرماتا ہے ، انہیں منہ مانگی مرادیں دیتا ہے ، اس رات کے فضائل احادیث میں بکثرت آئے ہیں۔
شب بیداری:

حدیث شریف میں وارد ہے :”رات کو اُٹھ کر عبادت کرو کیونکہ اس میں تمہارے رب کی رضا مندی ہے ۔”شب برأت کی مبارک ساعتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذات خود عبادت میں کثرت کی ہے ،اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں اس رات کو نوافل پڑھنا اور شب بیدار رہنا عین سنت ہے۔
مغفرت و بخشش کی رات:

اس رات کی فضیلت کی ایک وجہ بخشش اور مغفرت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات میں بے پناہ لوگوں کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور بے شمار لوگوں کی مغفرت کر دیتا ہے ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب آسمان دنیا کی طر ف نزول فرماتا ہے اور اس شب میں مشرک اور دل میں بغض رکھنے والوں کے سوا ہر
کسی کی مغفرت فرمادیتا ہے ۔ ابن ماجہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، جب شعبان کی پندرہویں رات آجائے تو اس رات کو قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو کیونکہ رب تبارک وتعالیٰ غروب آفتاب سے آسمان دنیا پر آپ تجلی فرماتا ہے اور فرماتا ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ اسے بخش دوں ، ہے کوئی روزی طلب کرنیوالا اسے روزی دوں ، ہے کوئی مبتلا کہ اسے عافیت دوں ہے کوئی ایسا ، ہے کوئی ایسا ، یہ اس وقت تک فرماتا ہے کہ فجر طلوع ہوجائے ۔
تقسیم امورکی رات:
ارشاد باری تعالیٰ ہے :”اس رات ہر حکمت والے کا م کا فیصلہ کردیا جاتا ہے ۔”(سورۃ دخان )اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ اس رات یعنی پندرہویں شعبان کوکیا ہوتا ہے ۔ عرض کیا ! اے اللہ کے رسول اس میں کیا ہوتا ہے ؟فرمایا !’’اس سال میں جس بچے نے پیدا ہونا ہے اس رات وہ لکھا جاتا ہے اور اس سال میں جس نے وفات پانی ہے اس رات اسے لکھا جاتا ہے اور اس رات (سال بھر کے )اعمال اُٹھائے جاتے ہیں
اور(سال بھر کا ) رزق نازل کیا جا تا ہے ۔‘‘
نزولِ رحمت کی رات:

حدیث شریف میں ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات میں خدائے ذوالجلال آسما نِ دنیا پرجلوہ افروزہوتا ہے اور فرشتے اللہ تعالیٰ کے سامنے سال بھر کے اعمال نامے پیش کرتے ہیں ۔اس کے بعد احکم الحاکمین اپنی شفقت سے بندوں کو خطاب فرماتا ہے ہے کوئی مغفرت مانگنے والا کہ میں اس کے گناہوں کو بخش دوں،خبردار ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں، خبردار ہے کوئی مصیبت میں گرفتار کہ
میں اس کو معافی عطا کردوں،یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے شب برأت کوقبر ستان جا ناچا ہیے:

پندرہویں شعبان کی شب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع قبر ستان میں تشریف لے گئے جیسا کہ حدیث اُ م المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا میں اس کا واضح ذکر موجود ہے لہٰذا شب برأت پر قبر ستان جا نا بھی سنت نبوی ہے ۔ نیز دیگر احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال شہدأاحد کی قبروں پر تشریف لے جاتے اہل قبور کو سلام فرماتے اور دعا فرماتے نیزمسلمانوں کو حکم دیا کہ اہل قبور کو سلام کہو بلکہ سنن بیہقی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کی قبر پرکھڑے ہو کر فرمایا !جو بھی انہیں سلام کہے گا یہ قیامت تک اس کا جواب دیں گے ۔ اے مسلمانوں ! تم انہیں سلام کہو اور انکی زیارت کرو۔ ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا اب تم قبروں کی زیارت کرو کیونکہ یہ عمل آخرت کی یاد دلاتا ہے پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا چاہیے
پندرہویں شعبان کے روزے کے بارے میں حضرت علی المرتضی کرم اللہ
وجہہ الکریم روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں تاریخ آئے تو رات کو شب بیداری اختیار کرو اور دن کو روزہ رکھو
بیشک اللہ تعالیٰ یعنی اس کی رحمت غروب آفتاب کے وقت نیچے والے آسمان پر نزول فرماتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ ہے کوئی بخشش مانگنے والا اسے بخش دوں ہے کوئی رزق مانگنے والا اسے رزق دوں ، ہے کوئی عافیت و سلامتی مانگنے والا کہ اسے عافیت و سلامتی دوں ،ہے کوئی ایسا ہے کوئی ایسا حتیٰ کہ صبح صادق طلوع ہو جاتی ہے
رحمت خداوندی سے محروم اشخاص:

اس رات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کیلئے عام معافی کا اعلان ہوتا ہے اور سب کی مغفرت ہو جاتی ہے سوائے چندلوگوں کے ۔مختلف احادیث کی رو سےمشرک ،والدین کے نافرمان ،کاہن،نجومی ،جادوگر، فال نکالنے والے،سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیخلاف عمل کرنے والے،جلاد،قرابت داروں سے قطع تعلق
کرنیوالے،کینہ پر ور،عادی سود خود،ناچ گانے والے،زنا کار،شراب کے عادی مردوخواتین کی بخشش نہیں ہوتی ۔اللہ تعالی ہمیں ان خوش نصیب لوگوں میں شامل فرمائے جن کی اس رات بخشش ہوجاتی ہے ۔

ہمیں چاہیے کہ رب تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ مغفرت و بخشش مانگیں، شب برأت کے مقدس لمحات اور روح پرور ساعتو ں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی کوشش کریں ، اور ہر وقت مغفرت و بخشش کے اوقات و اسباب کی تلاش میں رہیں تاکہ کسی عمل سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرما دے ، سابقہ گناہوں سے توبہ کریں بخشش مانگیں ،درود شریف کی کثرت کریں ،نمازوں کی قضاء کریں ،قرآن کریم کی تلاوت کریں ،اورآتش بازی سے غضب الہی کو دعوت نہ دیں ، حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کئی غافل عمارتیں بنارہے ہوتے ہیں جبکہ انکی قبر تیار ہورہی ہوتی ہے، اور کئی بازاروں میں شاپنگ میں مصروف ہوتے ہیں جبکہ ان کا کفن تیار ہو رہا ہوتا ہے ، نہ جانے قسمت میں کیا لکھا ہے۔ کرونا وائرس وبا کی شکل میں ہم پر مسلط ہو چکا ہے ،ان مبارک لمحات میں اللہ تعالی سے معافی مانگیں تاکہ ہمیں اس وبا سے چھٹکارا مل سکے اور اس رات تجدید عہد کریں کہ ہم وہ کام کریں گے جس سے اللہ تعالی کی رضا نصیب ہو اور وہ امور جو اس کے غضب کا سبب ہیں ان سے بچتے رہیں گے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں