75

شاید کہ اتر جاۓ تیرے دل میں میری بات

ہم جس عہد کے مسافر ہیں اس عہد میں پر فتن حالات اور جدید خطرات سوچنے کا تقاضا کرتے ہیں۔نسل نو کو اس طوفان بلاخیز سے بچانا اور حقیقی زندگی کی طرف ان کی رہنماٸی کرنا ہمارے فراٸض میں شامل ہے

۔یہ بات ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ جدت پسندی کا جنون کس حد تک نوجوان نسل اور میراث کے لیے پرخطر ہے۔تہذیبی نقوش اور تمدنی میراث کی

حفاظت اور یقین و ایمان کی نگہبانی کس قدر ضروری ہے۔شاید اس پہلو پر کبھی ہم نے سوچا ہی نہیں۔بقول شاعر:
فکر کر نادان مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں


جدید ذراٸع ابلاغ سے اگرچہ استفادہ کیا جا سکتا ہے۔کتب اور رساٸل و جراٸد کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور علم میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔اخبارات اور حالات حاضرہ سے واقفیت کسی بھی لمحہ ممکن ہے

۔لیکن نوجوان نسل کی مناسب تربیت اور رہنماٸی کی ضرورت زیادہ ہے۔اس وقت بے شمار مواد ایسا پھیلایا جا رہا ہے

جس نوجوان نسل کو بچانا اور مستقبل بہتر بنانا ہم سب کی ذمہ داری بھی ہے۔بقول شاعر:-
متاع دین و دانش لٹ گٸی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزہ خوں ریز ہے ساقی


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا”اللہ تعالٰی جس کے ساتھ بھلاٸی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی گہری سمجھ عطا فرما دیتا ہے“(صحیح البخاری ٬کتاب العلم)


کیا ہم مسلمانوں کے دل اس سوز سے خالی ہو چکے جس سے انسان کی ہستی میں ایک نکھار پیدا ہوتا ہے۔عصر نو میں تو دلوں میں علم کی شمع روشن کرنے کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔

زوال و انحطاط کے گھمبیر اندھیروں سے نکلنے اور آزاد فضا میں سانس لینے کی ضرورت تو ہر وقت درپیش ہے۔بقول شاعر:-
آباء سے اپنے تجھے نسبت کوٸی ہو نہیں سکتی
تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ


اس ضمن میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مسلمان کی شان بلند ہوتی ہے اور سوچ بھی گہرے سمندر کی مانند۔تقویٰ سے زندگی نہ صرف خوشگوار ہوتی ہے

بلکہ امن اور محبت کی فضا بھی مقدر بنتی ہے۔درد و غم کی کیفیت سے زندگی تعلیم سے تبدیل ہوتی ہے۔اس وقت کا منظر نامہ کس قدر دل گداز کہ” ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا نوع انساں کو “کے مترادف فرقہ بندی اور نفرت کے شکار انسان قابل رحم ہیں۔اس ضمن میں اسرار حیات سے آگاہی تو وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔

علم نافع کی برکات سے ہی زندگی کے راستے تبدیل ہوتے اور اسلوب زندگی میں عالمگیر انقلاب پیدا ہوتا ہے۔انسان کی

تخلیق جس مقصد عظیم کے لیے ہوٸی اس کی اہمیت سے غفلت برتنا بھی بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وحدت آٸین سے مسلمان کی بقا ہے

۔اور ملت کی بقا کا راز قرآن مجید کی روشن تعلیمات ہیں۔”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو“کا حکم تو انسان

کی بیداری کے لیے اہم ہے۔جدید ایجادات کے جلوٶں سے مسلمان تو اس قدر متاثر ہیں کہ بقا کے راز کی فکر تک نہیں۔بالخصوص نوجوان نسل اس کی شکار زیادہ ہے۔سنبھلنے کی ضرورت ہے۔بقول شاعر:-
بجھی عشق کی آگ تواندھیر ہے
مسلماں نہیں خاک کا ڈھیر ہے۔


ہمارے سینوں میں عشق حقیقی کی تڑپ مانند پڑنے لگی اور ظاہری چمک کے اسیر ہونے سے یقین و ایمان بھی خطرے میں ہے۔کیا مسلمان جمعیت کے فلسفہ اور راز کو بھول چکے ہیں۔کیا تعلیم کی افادیت سے بے

خبر ہیں۔عزت و آبرو سے زندہ رہنا تو مسلمان کی شان ہے۔معرفت کے دروازے کی تلاش تو سب سے اہم ضرورت ہے۔کیوں کہ اس وقت مسلمان بے اطمینانی اور اضطراب کے عالم میں زندہ ہے۔وقت کا تقاضا تو یہی ہے۔بقول شاعر:-
آج بھی جو ہو ابراہیم کا ذوق ایماں پیدا


آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
تحریر۔فخرالزمان سرحدی
پتہ۔گاٶں ڈِنگ٬ڈاک خانہ ریحانہ


تحصیل و ضلع ہری پور

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں