شاہد جمیل منہاس ایک نباض عصر ادیب

۔ عوامی موضوعات پر لکھنے والا یہ منٹو تو نہیں مگر اس کے خیالات کا پاسبان ہے
ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم
راولپنڈی سے کچھ فاصلہ پر واقع ایک گاوں ساگری ہے۔ میں آج تک وہاں گیا نہیں مگر اس مٹی سے بننے والے خمیر سے فرشتوں نے پاکستان کے لیے بہت سے ادیبوں اساتذہ اور انجینیرز کو تیار کیا ہے

۔ ان میں ایک نام شاہد جمیل منہاس کا بھی ہے۔ جو قلم کتاب کے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ چہرے پر دائمی مسکراہٹ لیے درد دیکھنے سمجھنے سننے اور الفاظ کا جامہ پہنانے والا میرا یہ دوست شعبہ تدریس سے وابستہ ہے۔ سچے موتیوں کی مالا پرونے والا یہ معلم ایک اچھے ادیب کی تمام طرح خوبیوں کا مالک ہے۔ ہر ملاقات میں سیکھنا اور کچھ نیا لکھنا جو ادب برائے اصلاح کا عمدہ شاہکار ٹھہرے اس کے قلم کا خاصا ہے۔

عوامی موضوعات پر لکھنے والا یہ منٹو تو نہیں مگر اس کے خیالات کا پاسبان ہے جو اپنے دور کے مسائل کو ایوان تک لے جاتا ہے اور منبر و مسجد سے بھی اصلاح کے قاعدے ترتیب لگواتا ہے اس کا سفر یہاں ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ کلاس روم اس کے لیے وہ عبادت گاہ ہے وہ این جی او جہاں وہ اپنے شاگردوں کو ایک بیج کی طرح سمجھتا ہے اور ان کو اخلاص پیار وفا ہمت عزم ارادہ حوصلہ اور ایسے کئی آب زم زم پلا کر ان کی نشوونما کرتا ہے اور اس کے بدلے اپنے وقت کا یہ مطلب پرست صرف اور صرف احترام آدمیت کا طلبگار ہے۔
دنیا کومکڑی کا جالا کہنے والا یہ درویش اقبال کے شعر عمل سے زندگی بنتی ہے کا راگ بھی آلاپتا ہے کہ سنو اعمال زندہ رہتے ہیں خود اعتمادی اور حب الوطنی پر جب قلم اٹھاتا ہے تو بے باک اور نڈر ہو کر ایک باشعور مبصر کے روپ میں سامنے آتا ہے۔
ہمارا جواب دشمن کی نسلیں یاد رکھیں گی
شہید ہو کروطن بچایا ہے
لہو کو گرما دینے والا کالم تو لکھتا ہی ہے مگر آستین کے سانپوں کی بھی پہچان رکھتا ہے۔تصور وطنیت میں اقبال ؒ کی شاگردی نمایاں ہے امت واحدہ کی بات کرتا ہے عالم اسلام کو درپیش چیلنجز کے مقابلے اور مسائل کے حل کی تجاویز دیتا ہے۔ گویا موصوف زندگی کے ہر پہلو کا قریب سے مشاہدہ کر چکے ہیں۔

اسی لیے ان کے قارئین ان کے تجربات سے محظوظ ہوتے ہیں۔ایک بہترین معاشرے کی تخلیق کے لیے کیا عناصر انسانی زندگی کا حصہ ہونے چاہیے

ایسے بہت سے خاموش سوالوں کے جوابات ان کے کالمز میں ملیں گے۔ رمیل ہاوس آف پبلی کیششنز کی شاہکار کتب میں ان کی اس کتاب کا شمار بلا مبالغہ کیا جا سکتا ہے اور اس معیار کی وجہ ان کے شامل کتاب موضوعات ہیں جن میں سے چند کا تذکرہ میں نے اوپر کیا ہے۔ آدم زاد کے لیے بہترین افکار رکھنے والے اس شخص کی عظمت کوسلیوٹ جوہمارے معاشرے کا ناصرف ایک ذمہ دار ادیب ہے بلکہ عاشق رسول ﷺ نعت گو شاعربھی ہے بارگاہ خیر الانام ﷺ میں گلہائے عقیدت جس ترنم سوز اور ساز سے پیش کرتے ہیں

سننے والوں کی آنکھ اشک بار ضرور ہوتی ہے ویسے جومعلم اس صفت سے متصف ہو وہ بلا شبہ ایک اچھا رہنما اور اتالیق ثابت ہوتا ہے عشق کی یہ دولت جب طلبا ء کو وراثت میں ملے تو ان کے دل خودبخود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے پیکر بن جاتے ہیں۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ شاہد جمیل بروز حشر بارگاہ نبوی ﷺ میں مقبول ہوں گے کیونکہ ان کی محبت اور پیشہ معلمی انہیں دوسرے شاعروں سے معلمین سے سبقت دلا دے گی۔ میرے دوست اللہ تمھاری مسکراہٹیں سدا سلامت رکھے۔ تم سلامت مع الکرامت رہو۔تمھارا قلم تمھاری محبت انسان دوست علم دوست جیسے اوصاف تمھارا شملہ سدا بلند رکھیں

اپنا تبصرہ بھیجیں