شاہد جمیل روشن امکانات کاکالم نگار

پروفیسرڈاکٹرزاہدحسن چغتائی/کسی شخص کااچھاانسان ہونااتفاق نہیں بلکہ توفیق ایزدی ہے۔میرے نزدیک رسول پاک سے محبت رکھنے والا نعت گواورنعت خواں اچھوں سے اچھاانسان ہوتاہے۔میں نے شاہدجمیل منہاس کواسی انسانی پیرائے میں دیکھااورمحسوس کیا۔وہ محبت رسول ﷺسے سرشاراوراسی لازوال رشتے کے زیراثراللہ کے بندوں سے پیارکرتاہے۔اس کے پاس علم،عمل،صبراورشکرسمیت ہرنعمت موجودہے جووہ اپنے کردارکے رنگوں میں قوس قزح کی طرح بکھیرتارہتاہے۔دورحاضرکے صاحب حال بزرگ واصف علی واصف نے کہاتھاکہ”وہ مقام جوعام لوگوں کے لئے صبرکاہوتاہے،خاص بندوں کے لئے شکربجالانے کاہے۔‘ میں نے خودشاہدجمیل منہاس کوصبراورشکرکے ہردومرحلوں سے بتدریج گزرتے ہوئے دیکھااوربھالاہے۔اپنے بڑے بھائی کی حادثاتی موت پروہ صبراورشکرکاہمالیہ سے بھی اونچاپہاڑلگتاتھا۔قلم کے ساتھ شاہدجمیل کاتعلق بہت اٹوٹ اورپراناہے۔اس نے شاعری کاآغازنعت گوئی سے کیا۔بلاشبہ ایں سعادت بزور بازو نیست وہ روحانی محفلوں میں نعت خوانی کرتاہے توگویااہل محفل کی سانسوں میں مشک عنبرکی خوشبو بکھیر دیتا ہے۔ اس نے کالم نگاری کاآغازبھی نعت گوئی ونعت خوانی کی عطربارخوشبوسے کیا۔اسی کے باوصف اس کے کالموں کا لوگو ”آبروئے ما“ ہے۔ہر دل مسلم مقام مصطفٰےؐ ست آبروئے ما زنام مصطفٰےؐ ست میراتفاخرہے کہ شاہدجمیل نے کالم نگاری کے لئے میرے سامنے زانوئے ادب طے کیا۔من آنم کہ من دانم،یہ سراسراس کی نیازمندی بھی ہے۔اس کی نثرنگاری کے امکانات میں نے ابتداء ہی میں بھانپ لئے تھے۔کالم نگاری میں اس کاتخلیقی سفربڑاحوصلہ افزااورباتوفیق ہے۔وہ اپنے اردگردبکھرے ہوئے معاشرتی اورتہذیبی موضوعات کاانتخاب کرتاہے اورلکھتے ہوئے اپنی تمام تر تخلیقی اورتحقیقی صلاحیتوں کوبروئے کارلاتاہے۔موضوع میں ڈوب کرلکھنے سے اس کی استغراقی قوت تحریرکابخوبی اندازہ ہوجاتاہے۔صحافتی تحریروں میں قوت پروازپیداکرنے کے لئے مطالعہ اورغوروفکربنیادی عناصرہیں۔شاہدجمیل اس ہنرکوبخوبی جانتااورپہچانتاہے۔اس کانظام فکرموضوعات سے لے کرکالم نگاری کے فن کاپورااحاطہ کرتاہے۔شاہدجمیل زودنویس توہے مگربسیارنویس نہیں۔کالم نگاری میں اس کامجاہدہ بتاتاہے کہ وہ جہدمسلسل کی بھٹی سے ایک دن ضرورکندن بن کے نکلے گا۔قلم کے ساتھ اس کارشتہ انتہائی پختہ ہے۔مشاہدہ،تجربہ اورکتاب بینی کامشغلہ اس کی قلم کاری کاپشت بان ہے۔شاہدکی جبلی شخصیت کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ ہرلحظہ سیکھنے کے عمل میں مگن رہتاہے۔وہ ایک استادہونے کے ناطے درس وتدریس کی ماہیت سے بخوبی آگاہ اورآشناہے۔اس لئے اسے دریاسے موتی نکالنے کاہنربھی آتاہے۔وہ اقبالؒکے پیغام سے بھی کسب فیض کرتاہے۔علامہ نے شایداسی کے لئے کہاتھاکہ
دریا میں موتی اے موج بے باک
ساحل کی سوغات خار و خس و خاشاک

اپنا تبصرہ بھیجیں